ملٹری کورٹس میں سویلینزکےٹرائل کامعاملہ:عدالت نےریکارڈ طلب کرنے کا عندیہ دیدیا

0
24

ملٹری کورٹس میں سویلینزکےٹرائل کےخلاف کیس میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ طلب کرنےکاعندیہ دے دیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کی ،وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل خواجہ حارث نےدلائل دئیے کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 59(4) کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے آرمی ایکٹ میں شامل مختلف جرائم پر سوالات اٹھائے، خاص طور پر سیکشن 31D کے حوالے سے جو فوجیوں کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے حوالے سے ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت آتا ہے، لیکن جسٹس جمال مندوخیل نے وضاحت دی کہ یہ سیکشن فوجیوں کے حوالے سے ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے مزید کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات 2D(1) اور 2D(2) کے تناظر میں آرمی ایکٹ دیکھا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اس بات پر زور دیا کہ آئین کئی دیگر ٹربیونلز کی توثیق کرتا ہے اور اس معاملے میں سوال صرف یہ ہے کہ کس کیس کو کہاں اور کیسے سنا جائے گا۔
عدالت نے مزید کہا کہ مسئلہ پروسیجر کا ہے اور سوال یہ ہے کہ ٹرائل کس فورم پر ہوگا۔آخر میں عدالت نے وکیل خواجہ حارث سے درخواست کی کہ وہ ایک منٹ کی رپورٹ تیار کر کے پیش کریں۔
اس رپورٹ میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لینے کے حوالے سے مختلف ججز اور وکیل کے بیانات پیش کیے گئے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے فوجی عدالتوں میں قانون کے مطابق ٹرائل کی پیروی اور ملزمان کے دفاع کے حقوق پر سوال اٹھایا، یہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی کہ آیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کی اجازت دی گئی یا نہیں اور آیا شواہد کا معیار مناسب تھا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی تھی اور ٹرائل کے دوران قانونی عمل کی درستگی کی جانچ کی ضرورت ہے۔
جسٹس امین الدین نے یہ وضاحت دی کہ اگر ضرورت ہوئی تو عدالت ریکارڈ طلب کر سکتی ہے اور وہ اپیلوں کے حوالے سے کسی بھی اثرانداز ہونے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لینے کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے اس بات کا عندیہ دیا کہ فوجی عدالتوں میں شواہد کا معیار عدالت کی توجہ کا مرکز ہے اور ان کا کہنا تھا کہ تمام مقدمات کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، تاہم ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت شواہد کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی، لیکن جائزہ لینے کے اختیار کی حد تک وہ عدالت کے ساتھ متفق ہیں۔اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قانون اور آئین کے مطابق ٹرائل ہو رہا ہے اور ملزمان کو انصاف کی فراہمی کے تمام حقوق دیے جا رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں جسٹس حسن اظہر رضوی کے بیانات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جنہوں نے آرمی ایکٹ کی اگست 2023 میں کی جانے والی ترامیم اور ان کے اثرات پر سوالات اٹھائے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے واضح کیا کہ موجودہ کیس میں واقعات مئی 2023 میں ہوئے تھے اور ان کے مطابق یہ سوال اٹھایا کہ کیا اگست 2023 میں کی جانے والی ترامیم کو 9 مئی کے واقعات پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد کے تحت کیا گیا۔اس سوال کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ آیا جو ترامیم بعد میں کی گئی ہیں، وہ ماضی کے واقعات پر اثرانداز ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ اس سوال کا قانونی پہلو یہ ہے کہ قانون میں کی جانے والی تبدیلیوں کا اطلاق ماضی میں ہونے والے واقعات پر کس حد تک کیا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کے اثرات اور ان کا اطلاق موجودہ کیس پر ایک اہم قانونی سوال ہے، جس پر عدالت کا تفصیل سے جائزہ لینے کا ارادہ ہے۔

 سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی۔

Leave a reply