پاک فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ۔ حیران کن حقائق

0
4

رپورٹ: انوار ہاشمی

کیا آپ کو اندازہ ہے کہ بھارتی فضائیہ، پاکستان کے شاہینوں سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ بھارتی فضائیہ کے کئی افسران نے پاکستانی سرحد کے قریب اڑان بھرنے سے معذرت کیوں کرلی ہے؟ اگر آپ کو حقائق معلوم ہوں تو آپ یہ جان کر فخر محسوس کریں گے۔ جی ہاں بھار ت کی عددی برتری کے باوجود پاک فضائیہ کے شاہین کیوں بھاری ہیں، یہ ہمارے فائٹر طیاروں کی اس وڈیو سے معلوم ہو جائے گا۔ آپ ذرا جے ایف سیونٹین تھنڈر کو بھارتی مگ کو گراتے ہوئے بھی دیکھیں گے۔
موجودہ جنگی حالات میں انڈیا کو سب سےزیادہ خوف پاکستان ایئرفورس سے ہے، انڈیا کو یقین ہے کہ اسکی معمولی سی شرارت پر پاکستانی شاہین منٹوں سیکنڈوں میں جواب دیں گے، اس لئے انڈیا خواہش کے باوجود خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ڈیفینسیو اپروچ رکھی ہے، مگرپاکستانی فوج نے یہ بھی طے کررکھا ہے کہOffence is the best defense
پلوامہ واقعہ کے بعد تو پاکستان ایئرفورس کے کارنامے نے بھارتی فوج اور ایئرفورس کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کردیا ہے۔ نریندرا مودی کے جذباتی فیصلے اور غلط فہمی نے بھارتی ایئرفورس کی کئی دہائیوں سے تیاری اور دعوے خاک میں ملا دیئے۔ بھارتی ایئرفورس کے تمام پائلٹوں کے سامنے ابھینندن کی خوفزدہ شکل سامنے آجاتی ہے، اس لیے وہ پاکستانی سرحد کی طرف اپنے طیارے کو لے جانے سے ڈرتے ہیں۔ پلوامہ کے بعد ہمارا میسیج بڑا کلیئر تھا کہ پاکستانی شاہین بھارت کے اندر تک جاکر واپس آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوہزار انیس میں پاکستان اور انڈیا کی فضائیہ میں کیا فرق سامنے آیا، دونوں کی فضائیہ کے پاس فورتھ جنریشن لڑاکا طیارے تھے، لیکن بھارتی پائلٹوں کا مائنڈ سیٹ سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن والے جہازوں کا تھا، ابھینندن کو بھارت کا سب سے بہترین پائلٹ سمجھ کر پاکستان کی طرف بھیجا گیا، اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے، کیسے جانا ہے اور کیسے پلٹنا ہے۔ نہ ہی اسے ایئرکنٹرولر درست رہنمائی دے سکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارتی فضائیہ کی دنیا بھر میں اتنی رسوائی ہوئی کہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ ہماری فوج کو یہ ایج حاصل ہے کہ وہ بولڈ اور آزادانہ فیصلے کرتی ہے۔ فوری فیصلے کرتی ہے۔ بھارتی فوج کو فیصلے کےلئے مودی انتظامیہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جنگی ماہرین کے مطابق:
JF-17 تھنڈر طیارے پاک فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ پاکستانی تھنڈر کی شاندار کارکردگی بھارتی فضائیہ کی نفسیات پر سوار ہے۔
جس کا تازہ ترین ورژن JF-17 بلاک III ہے۔ یہ جیٹ طیارے AESA ریڈار، ایڈوانسڈ بیونڈ ویژول رینج (BVR) میزائلوں اور جدید ترین ڈیجیٹل ایونکس سے لیس ہیں۔
پاکستان کے پاکستان چینی ساختہ J-10C کا سکواڈ بھی بڑا ہی برق رفتار ہے، جو کہ ایک انتہائی قابل 4.5+ جنریشن کا ملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے، اس کے ساتھ امریکی F-16- جیٹ طیارے جو فضائی غلبہ کے لیے مشہور ہیں، خاص طور پر ڈاگ فائٹنگ کے کمالات ناقابل فراموش ہیں۔
دوسری طرف ہندوستانی فضائیہ فرانسیسی ساختہ رافیل جیٹ طیاروں کو اڑاتی ہے، جو Meteor BVR میزائلوں، SCALP کروز میزائلوں، اور جدید ترین الیکٹرانک جنگی نظام سے لیس ہے۔ بھارتی پائلٹ رافیل کے اندر موجود خوبیوں کو بروقت استعمال کرنے کی مہارت حاصل نہیں کرسکے۔ ہندوستان کے پاس بھی کافی تعداد میں Su-30MKI جیٹ طیارے ہیں، اور مقامی طور پر تیار کردہ تیجس ہلکے جنگی طیارے (LCA) کو بتدریج شامل کیا جا رہا ہے۔ تاہم، تیجس اب بھی آپریشنل سطح پر دنیا کی بڑی فضائی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت صرف عددی برتری کی تشہیر کرتا رہتا ہے۔
بھارت کے پاس 600 سے زیادہ لڑاکا طیارے ہیں، جب کہ پاکستان کے پاس 350 کے قریب جدید لڑاکا طیارے ہیں۔ تاہم جب آپریشنل کارکردگی اورتیز فیصلہ سازی کی بات آتی ہے، تو پاکستان JF-17 کو جس مہارت سے پاکستانی پائلٹ استعمال کرتے ہیں، اسے دنیا کے دیگر ممالک کے پائلٹ کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معیار اور مقدار کے درمیان یہ توازن جدید جنگ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
پی اے ایف کا سٹریٹجک نظریہ، تربیتی معیارات، اور پیشہ ورانہ طرز عمل اسکا پلڑا بھاری رکھتا ہے۔ بالاکوٹ واقعہ ایک اہم واقعہ ہے — پاکستان نے ایک ہندوستانی مگ 21 کو مار گرایا اور ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر لیا، جس سے دنیا کو ایک واضح پیغام بھیجا گیا: یہ صرف اس بات پر نہیں ہے کہ آپ کے پاس کتنے جیٹ طیارے ہیں، بلکہ آپ انہیں کیسے استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کے ایک پائلٹ کی شرمناک ناکامی نے بھارتی فضائیہ کی ساکھ خاک میں ملا دی۔
بھارت رافیل طیاروں کو پاکستانی سرحدکے قریب لانے سے ڈرتا ہے، کیونکہ پاکستان کی فضا سے فضا میں رسپانس صرف تین سے پانچ سیکنڈ ہے۔ ایف سولہ طیارے جنہوں نے پاکستان حدود میں رہ کر دفاع کرنا ہے۔۔۔وہ بھارتی طیاروں کو چند سیکنڈوں میں آگ کے گولے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ بھارتی مگ اکیس پہلے ہی اپنی ناکامی کا ثبوت دنیا کو دکھا چکا ہے۔
پاک فوج کے ریٹائرڈ جرنیل بتاتے ہیں کہ ہم کافی دفعہ آمنے سامنے آئے لیکن انڈیا کبھی لارج سکیل آپریشن کرنے کی جرات نہیں کر سکا ہم defensive ہیں شروع سے ہی اور انڈیا ہمیشہ offensive رہا ہے اور اس کی سٹریٹجی بھی یہی رہی ہے لیکن جب سے پاکستان نیوکلیئر طاقت بنا اس چیز نے انڈیا کو ریسٹرکٹ کیا ہے وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتا اور جب کرتا ہے یہاں سے منہ توڑ جواب بھی دیا جاتا ہے اس وجہ سے انڈیا کچھ حاصل نہیں کر پا رہا 2016 اور 2019 میں اس نے جھوٹا پروپگینڈا کیا کہ ہم نے سرجیکل سٹرائک کی لیکن کچھ نہیں ہوا تھا ۔
پاک فضائیہ کے پاس ویسے تو غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے طیارے اور خفیہ ہتھیار موجود ہیں، مگر جے ایف17 تھنڈر کو اس پورے خطے کی فضائیہ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ اس کواڑانے اور ہدف کو نشانہ بنانے کی جو تربیت پاکستانی شاہینوں کے پاس ہے وہ دنیا میں کسی اور پائلٹ کے پاس نہیں ہے۔ یہ تھنڈر پاک چین اسٹریٹجک دوستی کا ایک شاہکار ہے۔ اس طیارے نے بھارت کے مگ 21 کو جس مہارت سے گرایا ہے، اس کے بعد پوری دنیا میں پاک فضائیہ کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔
دوسری طرف امریکی ساختہ ایف-16 فیلکن لڑاکا طیاروں کو ملٹی رول کومبیٹ طیارے کا درجہ حاصل ہے۔
پاکستان نے 1983ء میں 45 ایف-16 طیارے اپنے فضائی بیڑے میں شامل کیے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صلاحیت بڑھانے کی ضرورت پڑی تو امریکا نے ایف-16 طیاروں کی فراہمی کا سلسلہ بحال کیا اور سال 2009ء میں پاک فضائیہ کے بیڑے میں مزید 14 طیارے اور سال 2010ء میں ایک بار پھر 14 ایف-16 طیارے شامل ہوئے، یوں پاک فضائیہ کے زیرِ استعمال ایف-16 طیاروں کی کُل تعداد 68 ہوگئی ہے۔
اس طیارے کو جنگی طیاروں میں کامیاب ترین طیارہ کہا جاسکتا ہے۔ ان طیاروں کے نئے ماڈلز کوجدید بنایا گیا ہے جس میں طیارے کے بنیادی ڈھانچے اور اسلحہ اٹھانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا گیا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ایف-16 فیلکن طیارے سال 2070ء تک آپریشنل رہ سکتے ہیں۔
ایف-16 فیلکن ایک انجن والا، آواز کی رفتار سے تیز اڑنے والا طیارہ ہے۔ جو *(Mach 2) رفتار پر 9-جی کی گریویٹی فورس (جی-فورس) پر مینوور کرسکتا ہے۔ ایف-16 طیارے کو اڑانے کے لئے جوائے اسٹک کو پائلٹ کے دائیں ہاتھ پر دیا گیا ہے اور پائلٹ پر جی-فورس کا اثر کم کرنے کے لئے خصوصی نشست بنائی گئی ہے۔
ایف سولہ طیارہ عمودی ٹیک آف باآسانی لے سکتا ہے۔ اس کی باڈی میں مختلف دھاتوں کا استعمال کیا گیا ہے جیسے طیارے کا 80 فیصد حصہ المونیم، 8 فیصد فولاد، 3 فیصد مرکب اور ڈیڑھ فیصد ٹائیٹینیم پر مشتمل ہے۔
بھارتی فضائیہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان ایئر فورس نے افغانستان میں سویت مداخلت کے دنوں میں ملکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر افغان فضائیہ کے روسی ساختہ سکھوئی ایس یو 22، ایس یو 25، اے این 26 اور مگ 23 طیارے مار گرائے تھے۔ جبکہ کارگل کی جنگ میں بھی پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے3 طیاروں کو مار گرایا تھا۔
جے ایف-17 تھنڈر کا اگر تیجاس سے مقابلہ کیا جائے تو ہر شعبے میں اس کو برتری حاصل ہے۔
تھنڈر میں نصب حساس ریڈار نظام کی بدولت جے ایف-17 تھنڈر بیک وقت 15 اہداف کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ 4 اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے۔
اس لئے پاک فضائیہ کے ساتھ جن ممالک نے جنگی مشقوں میں حصہ لیا ہے، انہوں نے بھی بھارت کو بتا دیا ہے کہ پاکستان کے پاس نہ صرف اپنی تیار کردہ ٹیکنالوجی غیرمعوملی ہے بلکہ چین کے تعاون سے اسے بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل ہے۔۔۔اگر بھارت نے شرارت کی کوشش کی تو پاکستان شاہین بھارت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں گے۔

Leave a reply