آئی ایم ایف کا شکنجہ:پاکستان سے خفیہ معاہدے

رپورٹ: عریش آفتاب
0
37

یہ آئی ایم ایف کیا ہے؟
آئی ایم ایف کا واضح اور درپردہ ایجنڈا کیا ہے؟
آئی ایم ایف ترقی پذیر ممالک کو اپنے شکنجے میں کیسے جکڑتا ہے؟
آئی ایم ایف پر کونسی بڑی طاقتوں کا کنٹرول ہے؟
پاکستان کو آئی ایم ایف نے کیسے شکنجے میں لیا۔اور پاکستان آئی ایم ایف کی کونسی خفیہ شرائط ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔؟
یہ سب کچھ اور بہت کچھ آپ جان سکیں گے آج کی اس خصوصی رپورٹ میں؟
پاکستانی عوام ایک سوئی سے لیکر آٹا دال اور پیاز تک ٹیکس دیکر وہ قرض چکا رہے ہیں، جس قرض کو خرچ کرنے کا کہیں ریکارڈ تک موجود نہیں ہے۔یہ قرض ہڑپ کرنے والے سیاستدانوں کو آئی ایم ایف بار بار قرض کیوں دیتا ہے۔؟
آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کی باتیں توہردور میں ہوتی رہی ہیں، اس بار تو آئی ایم ایف نے پاکستان کو محمد اورنگزیب کے نام سے اپنا وزیرخزانہ ہی دے دیا ہے۔ مالیاتی اداروں کا تجربہ رکھنے والے محمد اورنگزیب نے جس وقت وزارت سنبھالی ہے اس وقت انکے پاس پاکستان کی شہریت ہی نہیں تھی بلکہ وہ نیندرلینڈ کے شہری تھے۔
ماضی میں تو معین قریشی نامی ایک شخصیت جو براہ راست آئی ایم ایف کے ملازم تھے وہ پاکستان کے نگران وزیراعظم رہ چکے ہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ پاکستان میں بطور وزیراعظم حلف اٹھانے آئے۔ اس سے چند گھنٹے پہلے اسکو پاکستان کا شناختی کارڈ بنا کردیا گیا۔
آئی ایم ایف کا قیام کب اور کیوں ہوا؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور یورپ شدید کساد بازاری کا شکار تھے۔ جس کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ میں تقریباً تین کروڑ افراد کارخانے فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے تھے۔ اس مقصد کےلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے وجود میں لائے گئے تاکہ قرضے فراہم کرکے ان ممالک کی معیشتوں میں قوت خرید بحال رکھی جائے۔
آئی ایم ایف کا قیام دسمبر 1945 میں عمل میں آیا۔ اسکا مرکزی دفتر امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں بنایا گیا۔ابتدائی طور پر 44 ممالک اس کے ممبر بنے جبکہ اس وقت رکن ممالک کی تعداد 185 ہے۔آئی ایم ایف میں ہر ممبر ملک کو اسکی قومی آمدنی اور بین الاقوامی تجارت میں شرح تناسب کی بنیاد پر ایک کوٹہ الاٹ کیا جاتا ہے اور ہر ممبر ملک اس کوٹے کا 75 فیصد اپنی کرنسی میں ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے اور 25 فیصد گولڈ کی صورت میں جمع کرایا جاتا ہے جمع کرائےگئے سونے کے متبادل آئی ایم ایف ممبر ملک کو ایک گارنٹڈ کاغذی کرنسی جاری ہے۔یہ کاغذی کرنسی بین الاقوامی ریزرو کے طور پر شمار ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کا پہلا شکنجہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کیونکہ پاکستان جیسے مقروض ممالک کا اپنے زرمبادلہ پر کنٹرول نہیں ہوتا اور یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ اس کرنسی کو ایس ڈی آر کہتے ہیں۔اسکی کرنسی کی ویلیو کیا ہوتی ہے۔یہ بھی چند بڑے ممبر ممالک اپنی کرنسیوں کی نسبت سے طے کرتے ہیں۔اس کاغذی کرنسی کے ذریعے ترقی پذیر ممبر ممالک کا شکنجہ کسا جاتا ہے۔
امریکہ نے جاپان اور اپنے چند دیگر اتحادیوں کے ذریعے اپنے گولڈ کے عوض آئی ایم ایف کے 80 فیصد فنڈز پر کنٹرول حاصل کررکھا ہے۔پاکستان جیسے مقروض ممالک کی کاغذی کرنسی بھی امریکہ جیسے چند ممبر ممالک کی ملکیت ہوچکی ہوتی ہے۔اس لئے امریکہ اپنی شرائط پر پاکستان جیسے ممالک کو قرض دیتا ہے۔اس حوالے سے پاکستان آئی ایم ایف کے نام پر خفیہ طور پر امریکہ کا مقروض ہوتا ہے۔اور اسکی شرائط ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔اس لئے امریکہ جب پاکستان کا معاشی شکنجہ کستا ہے تو پاکستان کے دفاعی اخراجات بھی متاثر ہوتے ہیں اور پھر پاکستان کے طاقتور حلقوں کے ذریعے جب چاہیں، اپنی مرضی کی شرائط منواتے ہیں۔
اہم ترین:
یہ انکشاف آپ کو پریشان کردے گا کہ ہزاروں ارب روپے قرض کی وجہ سے آئندہ کئی دہائیوں تک آپ جتنا زرمبادلہ کما لیں، اسکا کنٹرول امریکہ کے پاس رہے گا کیونکہ وہ آئی ایم ایف کے 80 فیصد فنڈز کا مالک ہے۔چین کے پاس بے شمار سونا ہے، وہ اپنے سونے کے بعد آئی ایم ایف کی کاغذی کرنسی زیادہ سے زیادہ خریدنا چاہتا ہے، مگر امریکہ اور اسکے اتحادی اسے ایسا نہیں کرنے دیتے۔
آئی ایم ایف کسی ملک کے جمع کرائے گئے زرمبادلہ کا صرف پچیس فیصد قرض آسان شرائط پر دیتا ہے، اس سے زیادہ قرض لینا ہو تو شرح سود بہت زیادہ ہوتی ہے۔چونکہ پاکستان کےپاس زرمبادلہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لئے آئی ایم ایف امریکہ کی ڈکٹیشن پر کچھ خفیہ شرائط پر پاکستان کو کم شرح سود پر قرض دے دیتا ہے اور جب ڈوری کھینچنی ہو تو شرح سود غیر معمولی بڑھا کر پاکستان کو جھکا دیتا ہےاور ڈیفالٹ ڈیکلئر کرنے کی دھمکی دے دیتا ہے۔
شرائط:
پاکستان پر امریکہ کے ذریعے اس وقت آئی ایم ایف کی نوازشات شروع ہوجاتی ہیں، جب پاکستان سے چین اور ایران کے بارے کچھ معاملات منوانے ہوں۔ افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کرنے ہوں۔ کوئی وزیراعظم امریکہ کی ڈکٹیشن سے انکار کرے تو اسے حکومت سے نکالنا ہو۔
اس خطے میں خفیہ اڈے یا خفیہ راستے درکار ہوں۔لاجسٹک چاہئے ہو۔اسطرح کے متعدد خفیہ مقاصد حاصل کرکے قرض کے نام پر امداد د ی جاتی ہے۔
کس نے کتنا قرض لیا؟
پاکستان پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس 1958 میں گیا پاکستان نے آئی ایم ایف سے تب ڈھائی کروڑ کا معاہدہ طے کیا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پاکستان نے پہلی دفعہ قرض لیا تھا تو اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جاتے اور ایسے حالات بنائے جاتے کہ پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا ۔
جنرل ایوب خان نے 1965 میں 37.5 ملین ڈالر کا قرض لیا اور 1968 میں دوبارہ سے 75 ملین ڈالر کا قرض لیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں 11 اگست 1973 کو 75ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔11 نومبر 1974 کو 75 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا۔ اسی دور حکومت میں 9 مارچ 1977 کو 80 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور اقتدار میں جب ملک پر بے نظیر بھٹو حکمران تھیں، سٹینڈ بائی کی مد میں 28 دسمبر 1988 کو 273.1 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں ہی 22 فروری 1994 کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ اور ایکسٹنڈڈ کریڈٹ کی مد میں 985.7 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔
اس کے بعد نواز شریف کے دوسرے دور ِاقتدار میں 20 اکتوبر 1997 کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ اور ایکسٹنڈڈ کریڈٹ کی مد میں 1.13 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔جب جنرل پرویز مشرف آئے تو ان کے دور اقتدار میں 29 نومبر 2000 کو پاکستان نے سٹینڈ بائی کی مد میں 465 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ اگلے ہی سال یعنی 6 دسمبر 2001 میں ایکسٹنڈڈ کریڈٹ کے تحت پاکستان نے ایک بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔
مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ اقتدار میں 4 ستمبر 2014 کو ایکسٹنڈڈ فنڈ کی مد میں 4.3 ملین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ جو تمام کا تمام استعمال کیا گیا ہے۔
2022 میں عمران خان کے آخری مہینوں میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم 43705 ارب روپے تھا اور اپریل میں جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو قرض غیر معمولی طور پر بڑھ کر 58599 ارب روپے تک پہنچ ۔اس بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے ہیں اگر کوئی محروم رہا ہے تو وہ صرف بے چارے عوام ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت نے قرضوں میں روزانہ اوسطاً 41 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں بڑی لاپروائی سے قرض لیا جس کی وجہ سے پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات اب بڑھ کر 77.1 ٹریلین روپے ہو گئے ہیں۔قرضوں کی اس فہرست سے اندازہ لگا لیں کہ امریکہ اور عالمی طاقتیں کتنے اہداف پاکستان سے حاصل کرتے ہوں گے۔ اس وقت آئی ایم ایف کے بڑے مقروض ممالک میں ارجینٹا، مصر، یوکرین، ایکواڈور کے بعد پاکستان کا نمبر 5 واں ہے۔

Leave a reply