آٹھ ججزکےفیصلےکودوججزغلط قراردےدیتےہیں،جسٹس جمال مندوخیل

0
8

فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کےکیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نےریمارکس دئیےکہ جب آٹھ ججز کا کوئی فیصلہ آتا ہے، تو دو ججز اس فیصلے کو غلط قرار دے دیتے ہیں۔
فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کےخلاف انٹراکورٹ اپیل پرجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نےسماعت کی۔وزارت دفاع کی طرف سےوکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل خواجہ حارث کےدلائل:
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نےکہاکہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے بارے میں قانونی اور آئینی پہلوؤں پر غور کیا جائے۔یہ معاملہ آئین کے بنیادی حقوق اور سول عدالتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔
عدالت نے سماعت کے دوران مختلف قانونی نکات پر بحث کی اور وکلاء کو اپنے دلائل جاری رکھنے کی اجازت دی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےاپنےکل کےبیان پروضاحت دیتےہوئے ریمارکس دئیےکہ جب آٹھ ججز کا کوئی فیصلہ آتا ہے، تو دو ججز اس فیصلے کو غلط قرار دے دیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اس پر واضح کیا کہ ان کا یہ بیان کسی خاص معاملے کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عام تاثر تھا جو انہوں نے میڈیا میں بیان کیا۔ انہیں میڈیا کی رائے کی پرواہ نہیں ہے، لیکن یہ بات درست کرنی ضروری ہے کیونکہ بہت سے ریٹائرڈ ججز نے ان سے اس معاملے پر رابطہ کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا مقصد صرف اس بات کی وضاحت کرنا تھا کہ انہوں نے اپنے بیان میں کسی مخصوص فیصلے کی مخالفت نہیں کی، بلکہ یہ صرف ایک عمومی تنقید تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نےریمارکس دیتےہوئے کہاکہ اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں اور سویلینز کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم شامل کیے گئے تھے اور ٹرائل کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نےسوالات اٹھاتے ہوئے مہران بیس اور کامرہ بیس کے حملوں کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ان حملوں کے ملزمان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا اور کیا تحقیقات کے بعد کوئی نتیجہ نکالا گیا تھا۔ انہوں نے مزید سوال کیا کہ نو مئی کے جرم کی سنگینی کا موازنہ ان دہشتگردی کے واقعات سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے اور تحقیقات یقینی طور پر کی گئی ہوں گی۔اور جی ایچ کیو حملے کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا اور یہ ٹرائل اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔
عدالت نے ان حملوں کی بنیاد پر کی گئی ترمیم پر بات کی اور ہدایات لینے کے بعد وکیل سے مزید وضاحت طلب کی۔

بعد ازاں عدالت نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا اور مزید سماعت وقفے کے بعد ہوگی۔

Leave a reply