الیکشن ایکٹ ترمیمی بل2024کثرت رائےسےمنظور

0
92

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کی کثرت رائے سے منظوری دیدی ہے ،بل کے حق میں 8 جبکہ مخالفت میں4 ووٹ آئے ۔جے یو آئی (ف) نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
قوم اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین رانا ارادت حسین خان کی زیر صدارت ہوا جس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کا جائزہ لیا گیا ،اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے علی محمد خان کی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کے ساتھ بار بار جھڑپ ہوتی رہی۔
بل کے محرک بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ کوئی بھی امید وار اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی وابستگی کا ڈائیکلریشن دیتا ہے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو اسے پارٹی کا انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوتا وہ آزاد تصور ہوگا ،ہم ترمیم لارہے ہیں کہ اگر امید وار کامیاب ہونے کے بعد تین دن کے اندر کوئی پارٹی جوائن نہیں کرتا تو وہ آزاد ہی تصور ہوگا۔
ان کامزیدکہناتھاکہ اگر وہ ایک پارٹی جوائن کرلیتا ہے تو دوسری نہیں کر سکتا ۔یہ عمل ناقابل تنسیخ ہوگا اور کوئی بھی عدالتی فیصلہ اس پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین اور قانون بہت واضح ہے ،مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ ہو یا آزاد کامیاب امید وار کا پارٹی جوائن کرنا ،الیکشن ایکٹ اور الیکشن قواعدمیں ہر چیز کی وضاحت کردی گئی ہے ۔
اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ اور علی محمد خان کے درمیان جھڑپ ہوئی ،علی محمد خان نے کہا کہ یہ وزیر کے دل کا بل ہے جو حکومتی رکن کے ذریعے لایا گیا ہے ،حکومت سپریم کورٹ کے تصادم چاہتی ہے ۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے ،قانون اور اپنے ضمیر کے مطابق بات کروں گا ،قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے جبکہ تشریح عدالت کا حق ہے ،عدالت آئین و قانون نیا نہیں لکھ سکتی ،ہم پارلیمنٹ کے اندر مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے ،اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ عدالتی فیصلے میں مداخلت ہے تو لگے ،پارلیمنٹ حق قانون سازی سے دستبردار نہیں ہوگی ،بل کے تحت آزاد امید وار نے کوئی پارٹی جوائن کرلی تو اسے آخر تک تبدیل نہیں کر سکتا ،اگر وہ پارٹی جوائن کر کے پارٹی قیادت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو نا اہل ہوگا ۔
اگر وہ آزاد رہنا چاہتا ہے تو رہ سکتا ہے ،آئین کا آرٹیکل 51 اور106بہت واضح ہے ،میں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اس بل کی حمایت کرتا ہوں،ہم کسی ادارے کو آئین دوبارہ تحریر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ،یہ کوئی فوجداری قانون نہیں پہلے سے موجود قانون کی وضاحت کے لئے بل ہے اور اس کا اطلاق ماضی سے ہوسکتا ہے ۔
اب اراکین پارلیمنٹ پر ہے وہ کب سے اس کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں ،علی محمد خان نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کا کیس ہارنے کے بعد یہ بل لائی اس سے سوالات پیدا ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے ،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہمارے اراکین کے تین دن کا وقت بھی فیصلے سے شروع ہوگا ۔
الیکشن کمیشن نے ہمارا انتخابی نشان چھینا لیکن عدالت نے کہہ دیا کہ تحریک انصاف پہلے موجود تھی اور ہے ،اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے لئے تحریک انصاف فریق بھی نہیں تھی ،سنی اتحاد کونسل نے نشستیں مانگیں تھیں،80 سے زائد ایم این اے نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی درخواست دی ،82 لوگوں نے نکاح بھی سنی اتحاد کونسل سے کیا ،عمر ایوب آزاد امید وار تھے مگر سنی اتحاد کونسل کے ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر بن گئے یہ گڑھے تحریک انصاف نے خود کھودے ہیں ،بعض جماعتوں کے اراکین اپیل میں گئے ہیں لیکن ججز چھٹیوں پر چلے گئے لیکن چھٹیاں مختصر کی جا سکتی تھیں ،چھٹیوں کی وجہ سے آج مقدمات سپریم کورٹ میں 60 ہزار تک پہنچ گئے ،سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے کہا کہ کسی بھی قانون میں ترمیم لانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے ،سپریم کورٹ تشریح کر سکتی ہے اس قانون کا نفاذ کب سے کرنا ہے یہ پارلیمنٹ فیصلہ کرے،ہماری اس پر کوئی رائے نہیں ،ہم اپنی حدود سے باہر نہیں جا سکتے ،بعد ازاں ووٹنگ کرائی گئی تو بل کے حق میں 8 اور مخالفت میں 4ووٹ آئے ،جے یو آئی (ف) ووٹنگ سے غیر حاضر رہی ۔

Leave a reply