اُلٹی گنتی شروع،صدارتی الیکشن میں ایک روزباقی،کملاہیرس یاٹرمپ؟

0
40

امریکی صدارتی انتخابات میں ایک روزباقی رہ گیا،کون ہوگاوائٹ ہاؤس کا اگلا مہمان ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوارکملاہیرس یاپھرریپبلکن امیدوارڈونلڈٹرمپ کےدرمیان کانٹےکامقابلہ متوقع ہے۔دونوں امیدواروں کےدرمیان امریکہ کی صدارت کی جنگ عروج پرہے۔
امریکہ میں 5نومبرکوصدارتی انتخابات ہونےجارہےہیں،جس میں کانٹے دار مقابلےکاامکان ہے،رواں سال نومبرمیں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے دونوں پارٹیاں اپنے امیدوار کو جتوانے کےلئے بھرپور کوششیں کررہی ہیں۔ دونوں امیدوارخودبھی اپنی فتح یقینی بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگارہےہیں۔
انتظارکی گھڑیاں ختم ہونےکوہیں،امریکی صدارتی انتخابات میں فائنل راؤنڈشروع ہوچکاہے،چندریاستوں میں کانٹےدارمقابلہ کاامکان ہے، وہاں یہ ابہام موجود ہے کہ امریکہ کے اگلے صدر کے انتخاب کی دوڑ میں کون آگے رہے گا۔
پانچ نومبر کو ہونے والی پولنگ سے قبل ساڑھے سات کروڑ سے زائد امریکی ووٹرز بذریعہ میل یا پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف فلوریڈا میں قائم کیے گئے الیکشن لیب کے ڈیٹا کے مطابق 4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں نے پولنگ اسٹیشنز پر جا کر اپنا ووٹ دیا جب کہ 3 کروڑ 40 لاکھ لوگوں نے پوسٹل بیلٹ یاای میل ووٹنگ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
امریکہ کی بعض ریاستوں میں اتوار کو بھی ابتدائی ووٹنگ جاری رہی اور پیر (آج ) بھی ووٹرز وقت از وقت ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کریں گے۔
گزشتہ روز نارتھ کیرولینا میں ووٹنگ کی شرح 55 فیصد ، جارجیا میں 50 اور ٹینیسی میں 49 فیصد ووٹ کاسٹ ریکارڈ کیاگیا، ٹیکساس اور فلوریڈا میں 47،47 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔جوں جوں صدارتی انتخاب کیلئے پولنگ کا وقت قریب آ رہا ہے، دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان ایک دوسرے پرلفظی گولہ باری جاری ہے ۔
امریکی صدارتی امیدوارڈونلڈٹرمپ کاپنسلوینیامیں ریلی سےخطاب کےدوران کہناتھاکہ کملا ہیرس نے ملک کو توڑ دیا، ہم اسے ٹھیک کریں گے،میں تمام امریکیوں کےلئےامیدکاپیغام لےکرآیاہوں،منگل کوآپ کےووٹ سےمہنگائی کاخاتمہ کروں گا،سابق امریکی صدر نے ریاست شمالی کیرولائنا میں جیت کا دعویٰ کر دیا۔

اُدھرمشی گن کےچرچ میں انتخابی خطاب کےدوران ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوارکملاہیرس کاکہناتھاکہ  ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو ملک غیر مستحکم ہوجائے گا، 5 نومبر آنے میں باقی وقت مشکل ہوگا، آئیں اپنے مستقبل کا اگلا باب لکھیں، ان 2 دنوں میں ہمارے پاس قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ہے۔
سات سوئنگ ریاستوں میں کس کی برتری :
امریکی صدارتی انتخابات میں 7 ریاستوں، ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن کا کردار اہم ہوگا، ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے ، ان ریاستوں میں سے بھی جو امیدوار چار یا اس سے زائد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لے گا، وہ ملک کا 47واں صدر ہوگا۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ویک اینڈ پر سوئنگ ریاستوں میں ایسے ووٹرز کے پاس پہنچنے کی کوشش کی جو اب تک اپنے ووٹ کے فیصلے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔
امریکی انتخابی سیاست میں سوئنگ ریاستیں ان ریاستوں کو کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہا جا سکے۔ ایسی ریاستوں میں ان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو آخری وقت تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔
سوئنگ ریاستوں میں سے مشی گن میں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا ، کملا ہیرس مشی گن میں سرگرم جبکہ ٹرمپ کی پنسلوینیا، نارتھ کیرولائنا اور جارجیا میں دوڑ دھوپ جاری ہے جہاں انہیں توقع ہے کہ کملا ہیرس کے مقابلے میں انہیں زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق حال ہی میں کیے جانیوالے امریکی جریدوں کے ایک سروے میں ریاست پنسلیونیا میں ٹرمپ اور کملا 48 فیصد ووٹ لے کر برابر مقابلے میں ہیں ، اسی دوران 538 نیشنل پولزٹریکر کے مطابق ہیرس کو ٹرمپ پر ایک پوائنٹ کی برتری حاصل ہے ۔
امریکی سروے AtlasIntel s latest poll کے مطابق ان سوئنگ ریاستوں میں ووٹرز کا کہنا ہے کہ 49 فیصد شہری ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں ، سروے پول میں بتایا گیا ہے کہ ری پبلکنز کے ٹرمپ کو ڈیموکریٹس کی کملا ہیرس پر 1.8 ووٹ کی برتری حاصل ہے ۔مختلف رائے شماریوں میں کملا ہیرس کو اگرچہ صرف 1 پوائنٹ کی برتری ہے، تاہم اُس میں غلطی کا امکان بھی موجود ہے۔
اہم شخصیات کی حمایت:
امریکا کے معدد بزنس ٹائیکونز، شوبز ستاروں سمیت معروف شخصیات ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ امیدوار کی کامیابی کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔
مسلم ووٹرز کا رجحان:
مسلم ووٹرز اس انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں، جس کا ایک بڑا سبب غزہ کے بحران پر امریکی حمایت کے خلاف ردعمل بھی ہے لیکن ٹرمپ اور کملا کے درمیان مقابلہ سخت ہونے کے باوجود ایک فیصد مسلم اور پاکستانی ووٹرز ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہیں۔
امریکا کی سب سے بڑی مسلم سول رائٹس اور وکالت کی تنظیم، کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)، نے گزشتہ روز اپنے آخری انتخابی سروے کے نتائج جاری کیے ہیں۔کیئر کے مطابق، گرین پارٹی کی امیدوار جل اسٹائن اور نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان مسلم ووٹرز کی حمایت تقریباً برابر ہے، جہاں جل اسٹائن کی حمایت 42.3 فیصد جبکہ ہیرس کو 41 فیصد حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلم کمیونٹی میں محض 10 فیصد حمایت کے ساتھ کافی پیچھے ہیں۔
امریکا میں صدر کا انتخاب :
واضح رہےکہ امریکامیں ہرچارسال بعدصدارتی انتخابات ہوتےہیں،اس سال کولیپ کاسال کہاجاتاہے،امریکا میں 150 سال سے 2 ہی پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا ہے۔ ان میں سے ایک ریپبلکن پارٹی ہے جسے گرینڈ اولڈ پارٹی یا جی او پی بھی کہا جاتا ہے۔ اس پارٹی کا حلقہ اثر زیادہ تر امیر لوگ ہیں۔ جبکہ دوسری بڑی سیاسی جماعت ڈیموکریٹس ہے ۔ اس کے علاوہ بھی چند چھوٹی پارٹیاں ہیں جن میں گرین پارٹی بھی شامل ہے لیکن انہیں کبھی بھی عوامی سطح پر مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔
امریکی آئین کے مطابق ایک فرد دو مرتبہ سے زیادہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا، نومبر 2024 میں صدارتی انتخاب جیتنے والے امیدوار کی حکومت جنوری 2025 میں قائم ہو گی۔
امریکا میں 420 سیاسی جماعتیں ہیں جس میں قومی سطح پر 2 پارٹیاں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن مدمقابل ہیں، ڈیموکریٹ پارٹی کا قیام 1828میں عمل میں لایا گیاجبکہ ریپبلکن پارٹی 1854میں قائم کی گئی ، امریکہ کی دونوں اہم سیاسی جماعتیں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی پرائمری اور کاکس نامی ووٹنگ سیریز کے ذریعے صدارتی امیدوار کو نامزد کرتی ہیں۔
زیادہ تر امریکی شہری جن کی عمر 18 برس یا اس سے زیادہ ہے، وہ صدارتی الیکشن میں ووٹ دینے کے اہل ہوتے ہیں ، شمالی ڈکوٹا کے علاوہ تمام ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے پہلے خود کو رجسٹر کرنا ہوتا ہے، ہر ریاست کا ووٹر رجسٹریشن کا اپنا عمل اور ڈیڈ لائن ہوتی ہے، بیرون ملک مقیم امریکی شہری فیڈرل پوسٹ کارڈ ایپلیکیشن (ایف سی پی اے) مکمل کر کے خود کو رجسٹر کرا سکتے ہیں۔
اگرچہ تمام تر نگاہیں اس بات پر ہوں گی کہ امریکہ کا اگلا صدر کون بنتا ہے تاہم ووٹرز کانگریس اراکین کا انتخاب بھی کریں گے، کانگریس ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے، جس کی 435 نشستوں پر الیکشن ہوتے ہیں جبکہ سینٹ کی 100نشستوں پر بھی مقابلہ ہوتا ہے۔
فی الحال ایوان میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے، یہ ایوان ملک کے مالی اخراجات سے متعلق منصوبوں کی منظوری دیتا ہے جبکہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی تعداد زیادہ ہے جو اہم حکومتی تقرریوں کے بارے میں اپنا ووٹ دیتے ہیں۔

Leave a reply