بلدیاتی نظام پھر زیربحث ۔ کون رکاوٹ؟

0
3

بلاگ: حسیب چوہدری
پنجاب اسمبلی میں ایک بار پھر بلدیاتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ایک نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ پیش ہونے جا رہا ہے، جس کے مطابق بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں اور یونین کونسل کی بنیاد پر ہونگے ۔ اور سب سے اہم بات حکومت کا دعویٰ ہے کہ رواں مالی سال میں یہ انتخابات کروا بھی دیے جائیں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب صرف اعلانات ہیں یا واقعی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے؟
آیئے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر پاکستان میں بلدیاتی نظام آئینی تقاضوں کے باوجود اپنی جڑیں مضبوط کیوں نہیں کر سکا؟ یہ پارلیمانی نظام وفاق اور صوبائی نظام کے ساتھ بیک وقت کس طرح ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟ ایم این ایز اور ایم پی ایز اس نظام سے نالاں کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد کیا تضاد پیدا ہوا؟ اور سب سے اہم بات، آئینِ پاکستان مقامی حکومتوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 140-A مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ آرٹیکل محض ایک تجویز نہیں بلکہ صوبوں پر ایک ’’ئینی ذمہ داری‘‘ اور ’’ناقابلِ تنسیخ حکم‘‘ عائد کرتا ہے، جسے آج تک اس کی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں کیا جا سکا۔ اس آرٹیکل کے تحت ہر صوبائی حکومت پابند ہے کہ وہ مقامی حکومت کا نظام قائم کرے اور اختیارات کو منتخب نمائندوں تک منتقل کرے اور یہ منتقلی تین ستونوں پر قائم ہے۔
پہلا ستون سیاسی اختیارات کی منتقلی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار مقامی سطح پر منتخب نمائندوں کو دیا جائے۔ یہ نمائندے عوام کو جوابدہ ہوں اور مقامی ضروریات کے مطابق پالیسیاں بنائیں۔ اس کا مقصد جمہوریت کو نچلی ترین سطح تک پہنچانا ہے تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل میں براہِ راست شریک ہو سکیں۔
دوسرا ستون انتظامی اختیارات کی منتقلی ہے۔ اس سے مراد انتظامی مشینری اور خدمات (صحت، تعلیم، صفائی وغیرہ) پر کنٹرول مقامی حکومتوں کو دینا ہے۔ جب تک بیوروکریسی مقامی قیادت کے ماتحت اور جوابدہ نہیں ہوگی، سیاسی اختیارات بے معنی رہیں گے۔
اور تیسرا ستون مالیاتی اختیارات کی منتقلی ہے۔یہ ستون سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی وسائل اور محصولات اکٹھا کرنے کا اختیار دیا جائے۔ جب تک مقامی حکومتیں مالی طور پر صوبائی حکومتوں کی محتاج رہیں گی، وہ حقیقی معنوں میں خود مختار نہیں ہو سکتیں۔
کوئی بھی بلدیاتی قانون جو ان تینوں ستونوں پر ٹھوس انداز میں اختیارات کی منتقلی کو یقینی نہیں بناتا، وہ آئینی اسکیم سے متصادم سمجھا جائے گا۔
آئین کا آرٹیکل 32، اگرچہ براہِ راست قابلِ نفاذ نہیں، لیکن یہ آرٹیکل 140-A کے مقاصد کو تقویت دیتا ہے۔ یہ آرٹیکل ریاست کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان میں کسانوں، مزدوروں، عورتوں اور اقلیتوں کی خصوصی نمائندگی کو یقینی بنائے۔ اس معیار پر ماضی کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو وہ اکثر اس روح کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کی گئی تھیں، لیکن پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں اس نمائندگی کو نمایاں طور پر کم کر دیا گیا۔
جب تک مقامی حکومتوں کے پاس اپنی آمدن کا اختیار نہیں ہوگا، وہ عملی طور پر آزاد نہیں ہو سکتیں۔
اسی آئینی سوچ کی سب سے نمایاں مثال بھی 2001 میں جنرل مشرف کے دور میں دیکھنے کو ملی، جب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت ضلع ناظم کو براہِ راست عوام سے منتخب کیا گیا۔ اس دور میں نہ صرف بیوروکریسی ضلع ناظم کے ماتحت آئی، بلکہ اضلاع کو فنڈز بھی براہِ راست ملتے تھے، جس سے مقامی حکومتیں نسبتاً خودمختار تھیں۔ اختیارات کی عملی منتقلی کے حوالے سے یہ ایک مکمل ماڈل تھا۔
ایم این ایز اور ایم پی ایز ہمیشہ سے اس نظام سے نالاں رہے ہیں، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی نظام ان کے اختیارات میں واضح کٹوتی کرتا ہے۔ نہ صرف ان کی “ابسیلوٹ پاور” کو چیلنج کرتا ہے بلکہ ترقیاتی فنڈز کا رُخ بھی براہِ راست مقامی نمائندوں کی طرف موڑ دیتا ہے۔ یوں وہ سیاسی اثر و رسوخ، جو فنڈز اور فیصلوں کے ذریعے قائم رکھا جاتا ہے، کافی حد تک کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منتخب پارلیمنٹیرینز اکثر بلدیاتی نظام کو سرد مہری سے دیکھتے ہیں، اور اکثر اسے غیر ضروری یا متوازی ڈھانچہ قرار دے کر اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
اور اسکے ساتھ 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے جب اختیارات مرکز سے صوبوں کو منتقل ہوئے، تو ایک نیا تضاد سامنے آیا۔ صوبوں نے تو اپنی خودمختاری کا بھرپور فائدہ اٹھایا، لیکن یہی صوبے مقامی حکومتوں کو وہی اختیارات دینے سے کتراتے رہے۔ یوں وہی مرکزیت جو پہلے اسلام آباد میں تھی، اب لاہور، کراچی اور پشاور میں آ گئی۔ مقامی حکومتیں پھر سے سیاسی رحم و کرم کی محتاج ہو گئیں۔
پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ بنیادی طور پر دو سطحوں وفاق اور صوبے پر قائم ہے، لیکن بلدیاتی نظام اس کا تیسرا اور سب سے اہم ستون ہے، جو براہِ راست عوام سے جڑا ہوتا ہے۔ اگر اس نظام کو سنجیدگی سے منظم اور مؤثر انداز میں نافذ کیا جائے تو اختیارات واقعی نچلی سطح تک منتقل ہو سکتے ہیں، جہاں عام شہری اپنی ضروریات، مسائل اور ترقیاتی منصوبوں میں براہِ راست شریک ہو۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف عوامی خدمات بہتر ہوں گی بلکہ بیوروکریسی پر انحصار کم ہو گا، شفافیت بڑھے گی، اور کرپشن جیسے مسائل پر بھی قابو پانا ممکن ہو گا۔ ایک فعال بلدیاتی نظام عوام کو بااختیار بنانے کا سب سے مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے ۔
اب بات کرتے ہیں حکومتِ پنجاب جو نیا بلدیاتی ایکٹ لا رہی ہے ۔ اس میں بظاہر اصلاحات کی بات ہو رہی ہے۔ مثلاً ضلعی کونسلوں کو ختم کر کے تحصیل کونسلوں کو بنیادی اکائی بنایا جا رہا ہے، جبکہ لاہور میں میٹروپولیٹن کارپوریشن کو تحلیل کر کے سٹی کارپوریشن اور دس ٹاؤنز بنانے کی تجویز ہے۔ لیکن اس تبدیلی کے پیچھے سیاسی منطق یہ ہے کہ 2001 کے ضلع ناظم جیسے طاقتور عہدے اب صوبائی حکومت کے لیے چیلنج بن چکے تھے، لہٰذا انہیں ختم کر کے اختیار کو چھوٹے، کمزور یونٹس میں بانٹ دیا گیا ہے۔ بظاہر تو کہا جا رہا ہے کہ حکومت عوام کے قریب آ رہی ہے، لیکن اصل میں یہ مقامی قیادت کو کنٹرول کرنے کا عمل ہے تاکہ کوئی بھی مقامی نمائندہ سیاسی طاقت حاصل نہ کر سکے۔
نیا قانون اصلاحات کے بجائے اختیارات کو مرکز میں سمیٹنے کی ایک نئی کوشش دکھائی دیتا ہے، جو عوام کی شراکت کے بجائے ان کی نمائندگی کو مزید کمزور کرنے کی جانب قدم ہے۔۔۔پاکستان میں بظاہرپارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے، مگر یہاں پر صدر اور وزیراعظم کے الگ الگ انتخاب ہوتے ہیں، سینٹ اپنی جگہ پاور فل ہے، صوبائی حکومتوں اور وفاق کو الگ الگ اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں، ایسے میں مقامی حکومتیں ایک سوتیلے بچے کی طرح ہر وقت عدم توجہ کا شکار رہتی ہیں۔جبکہ مغربی ممالک کا نظام طاقت ور ترین میئر کی وجہ سے بہت کامیاب ہے۔ایک میئرکے پاس وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے زیادہ اختیار ہوتے ہیں۔اس لئے پاکستان میں مختلف اقسام کے نظام کی بجائے،نچلی سطح سے لیکر وفاق تک ایک ایسا مربوط نظام قائم کیا جائے۔جہاں اختیارات کی تقسیم بہت واضح ہو۔

Leave a reply