سب کو سی ایس ایس امتحان کا جنون کیوں؟

رپورٹ: عریش آفتاب
0
102

پاکستان میں نوجوانوں کو سی ایس ایس امتحان کا جنون کیوں ہوتا ہے؟
یہ سی ایس ایس کیا ہے، اسکی تاریخ کیا ہے اور یہ اہم کیوں سمجھا جاتا ہے؟
ڈاکٹرز، انجینئرزاور اہم ترین شعبوں کی ڈگری چھوڑکر نوجوان گریجوایٹس سی ایس ایس کا امتحان کیوں دینا چاہتے ہیں؟
سول سروس کے اس اہم امتحان اور سول سروس کو جائن کرنے والوں کی حقیقت جانیں گے۔ اس رپورٹ میں۔
یہ بات تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ آج نوجوانوں میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کا جنون پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یا انجینئربننے کے بعد بھی لوگ سی ایس ایس پاس کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنا ایک خواب ہونا چاہیے؟
آئیے پہلے سی ایس ایس کی تاریخ جانتے ہیں۔ سی ایس ایس کی تاریخ برطانوی راج سے شروع ہوتی ہے۔ برطانوی حکومت نے 1857 کی بغاوت کے بعد ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سول سروس کا امتحان متعارف کروایا۔ یہ امتحان لندن میں ہوتا تھا اور زیادہ تر انگریز ہی یہ امتحان دیتے تھے۔ لیکن پھر کچھ ہندوستانیوں نے بھی یہ امتحان دینے کی کوشش کی۔ اعلیٰ نشستیں انگریز اپنے پاس رکھتے تھے اور نچلی نشستیں ہندوستانیوں کو دے دیتے تھے۔ لیکن جو ہندوستانی شہری یہ امتحان پاس کر کے آتے، انہیں باقی لوگ خود سے افضل سمجھتے۔
کیونکہ ہندوستان کی مقامی آبادی انگریزوں کو بابو سمجھتے تھے،اس لئے سول سروس جائن کرنے والے مقامی نوجوان بھی بابو کہلانے لگے۔
انگریز کی غلامی میں رہنے والی قوم انہیں اس لئے سپیریئر سمجھتے تھے کیونکہ ایک تو یہ اس امتحان کی تیاری کے لیے برطانیہ جاتے اور آکسفورڈ یا کیمبرج جیسی یونیورسٹیوں میں ان کو اس امتحان کی تیاری کروائی جاتی۔ اس سے لوگ انگریزی بولنے والے ان ہندوستانی شہریوں کو بڑا بابو سمجھتے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سرکاری نوکری مل جاتی تھی، جو اس وقت بہت بڑی بات تھی۔ سرکاری نوکری کو سوسائٹی میں بہت عزت ملتی تھی۔انگریز حکومت کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے انکے پاس اختیارات زیادہ ہوتے تھے، اس لئے مقامی آبادی پر انکا رعب و دبدبہ بھی زیادہ تھا۔
ماضی کا یہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے سی ایس ایس کرنے والوں کو آج بھی سپیریئر سمجھا جاتا ہے۔ یہ مقابلے کے امتحان میں منتخب ہونے کے بعد ویسے تو عوام کی خدمت کےلئے منتخب ہوتے ہیں، اس لئے انہیں سول سرونٹ کہا جاتا ہے، مگر عوام نفسیاتی طور پرآج بھی بیوکریسی کو اپنا اصل حکمران سمجھتے ہیں۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اس حقیقت کو سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے پاکستان بننے کے بعد سول سرونٹس سے ایک خطاب میں واضح کردیا تھا کہ :
You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standards of honour, integrity, justice and fair play.”
پاکستان تو آزاد ہوگیا، لیکن سوچ آزاد نہ ہوسکی۔ انگریز کا دور دیکھنے والے وڈیروں نے اپنی اولادوں کو سول سروس میں لانے کو اہمیت دی۔
مقابلے کے امتحان میں حصہ لینا، کوئی بری بات نہیں، بہت محنت اور ذہانت کا کام ہے۔ افسر اور بیوروکریٹ بننا بھی بری بات نہیں۔ لیکن پاکستان میں ننانوے فیصد ایسے لوگ اختیارات کے حصول اور اختیارات کے ناجائز استعمال کےلئے سول سروس جائن کرتے ہیں، خدمت کےلئے نہیں۔۔۔۔یہی وہ نکتہ ہے جو بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
بانی پاکستان فرماتے ہیں، آپ حکمران نہیں عوام کے خادم ہو، مگر یہاں ایک بیوروکریٹ کےآفس میں عام آدمی کا داخل ہونا مشکل ہے۔
اسی شان، اسی پروٹوکول کو دیکھا دیکھی، سب اس فیلڈ کی طرف رجوع کرنا شروع ہوگئے۔
سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد 17 یا 18 گریڈ کا افسر لگ جاتا ہے اور تنخواہ بھی شروع میں 70 سے 80 ہزار روپے ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ڈاکٹر، انجینئرز اوردوسرے شعبوں میں تنخواہ زیادہ ہوتی ہے اور پرائیویٹ کام بھی ملتا ہے، لیکن یہاں تو ستر یا اسی ہزار تنخواہ لینے والے سرکاری افسر کے پاس چند دنوں میں گاڑیوں، بنگلوں کی کمی نہیں ہوتی۔ ان کے بچے مہنگے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں، جنکی فیس ان کے پاپا کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے۔
عام گریجوایٹ تو سول سروس کا امتحان ضرور دے، مگر جو ڈاکٹرز، انجینئرز یا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سول سروس کی طرف آجاتےہیں، وہ ان مستحق طالب علموں کا حق مارتے ہیں، جنہیں میرٹ میں انکی وجہ سے داخلہ نہیں مل سکا۔
پہلے یہ لوگ میرٹ پر ڈاکٹر یا انجینئرز کی سیٹ پر آتے ہیں، بعد میں چار یا پانچ سال کی ڈگری کے بعد سی ایس ایس کی طرف چلتے جاتے ہیں۔
ہمارے لیے اصل مقصد کیا ہونا چاہیے؟
اگر مقصد کرپشن کرنا، یا اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا ہے، تو بہت ہی افسوسناک ہے اور اگر مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے تو دوسرے شعبوں میں اس سے زیادہ مواقع موجود ہیں، عومی خدمت کے۔
اب سول سروس کے معیار اور میرٹ کو بحال کرنا ہے تو ایک ہی راستہ ہے، اگر انہیں بانی پاکستان کے فرمان کے مطابق پابند بنایا جائے کہ۔
You do not belong to the ruling class, you belong to the servants…
تو پھر اس فیلڈ کی طرف صرف وہی نوجوان آئیں گے، جو حقیقت میں خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ورنہ اس نظام کے تحت ہم صرف بابو پیدا کررہے ہیں، سول سرونٹ ہرگز نہیں۔

Leave a reply