سویلینزکاملٹری ٹرائل:جرم آرمی ایکٹ میں آتاہےتوملٹری ٹرائل ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر

سویلینزکےملٹری کورٹ میں ٹرائل کےکیس میں جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دئیےکہ اگر جرم آرمی ایکٹ میں آتا ہے تو ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کی ،وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ اور رولز میں فئیر ٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم ہونے کا دعویٰ کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مختلف ججز کے الگ الگ فیصلوں کی جانب توجہ دلائی اور خواجہ حارث سے ملٹری ٹرائل سے متعلق سوالات کیے۔
خواجہ حارث نےدلائل دیتےہوئےبتایا کہ21 ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ 9 ججز کا تھا اور اس میں ایف بی علی کیس کی توثیق کی گئی۔ لیاقت حسین کیس میں بھی نو ججز کا فیصلہ تھا اور کسی جج نے ایف بی علی کیس کے جوڈیشل ریویو کی بات نہیں کی۔فیصلہ میں 9 مئی کے واقعات کو خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا ہے۔ مختلف ججز نے 9 مئی کے ملزمان کے کیسز کی نوعیت پر تبصرہ کیا، جس میں حملے اور احتجاج کے فرق کو واضح کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر جرم آرمی ایکٹ میں آتا ہے تو ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وضاحت کی کہ سیاسی سرگرمیاں ایک حد تک جائز ہیں، لیکن ریاستی املاک پر حملہ سیاسی سرگرمی نہیں ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے 9 مئی کے حملوں کو سنگین قرار دیتے ہوئے متعدد مقامات پر حملے اور اس کے اثرات پر بات کی۔
خواجہ حارث نے 21 ویں ترمیم کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل ممکن تھا، لیکن یہ واضح کیا کہ پولیس اہلکاروں پر حملہ بھی جرم ہے۔ ججز نے اس بات پر بھی غور کیا کہ پارلیمنٹ پر حملے کے معاملے پر ملٹری ٹرائل کیوں نہیں کیا گیا۔سپریم کورٹ میں 9 مئی کے ملزمان کے کیسز پر سماعت کے دوران مختلف قانونی نکات پر بحث ہوئی۔
وکیل خواجہ حارث نے مزیدکہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر فیڈریشن کو مکمل شنوائی کا موقع نہیں دیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا اٹارنی جنرل کو آرمی ایکٹ کی شقوں پر نوٹس دیا گیا تھا، جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ بینچ نے اٹارنی جنرل کو نو اور دس مئی کے واقعات پر دلائل دینے کی ہدایت کی تھی۔
جسٹس مظہر نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ پہلے آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کرنے کا کہا گیا، پھر انہیں کالعدم قرار دے دیا گیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج نہیں کیا تھا اور کیس آئین کے تحت دیکھنے کی بات کی تھی۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے قبل فیڈریشن کو مکمل شنوائی کا حق ملنا چاہیے تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت پیر کے دن تک ملتوی کردی۔
Leave a reply جواب منسوخ کریں
مزید دیکھیں
-
سائنس کا نیا شاہکار”اٹلس روبوٹ
اپریل 19, 2024 -
وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا بیان
مارچ 20, 2024
اہم خبریں
سائنس/فیچر
پاکستان ٹوڈے ڈیجیٹل نیوز پر شائع ہونے والی تمام خبریں، رپورٹس، تصاویر اور وڈیوز ہماری رپورٹنگ ٹیم اور مانیٹرنگ ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں۔ ان کو پبلش کرنے سے پہلے اسکے مصدقہ ذرائع کا ہرممکن خیال رکھا گیا ہے، تاہم کسی بھی خبر یا رپورٹ میں ٹائپنگ کی غلطی یا غیرارادی طور پر شائع ہونے والی غلطی کی فوری اصلاح کرکے اسکی تردید یا درستگی فوری طور پر ویب سائٹ پر شائع کردی جاتی ہے۔