عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ: بیک ڈور رابطے کس نے ناکام بنائے

تجزیہ: انوار ہاشمی
0
72

کیا یہ ممکن ہے کہ بیک ڈور رابطوں سے بانی پی ٹی آئی کو ریلیف کے مثبت اشارے مل رہے ہوں، اور عمران خان ان کوششوں کو خود سبوتاژ کردیں۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ عدلیہ بغیر دباو کے پی ٹی آئی رہنماوں کے کیسز سننے شروع کرے اور بانی پی ٹی آئی حساس اداروں کے خلاف پرپیگنڈہ مہم شروع کردیں؟ بیک ڈور رابطوں سے لیکر اسٹیبلشمنٹ اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان دوبارہ خلیج بڑھنے تک کے حالات کیوں پیدا ہوئے ؟

سابق صدر عارف علوی اور بیک ڈور رابطے کرنے والوں کی کوششوں کو پہلا دھچکا اس وقت لگا، جب عمران خان نے حساس ادارے کے چیف کے خلاف برطانوی اخبار میں متنازع آرٹیکل لکھ دیا۔

اس خلیج کو دوبارہ پار کرنے کی کوشش جاری تھی کہ بانی پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ سے سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے ایک متنازع وڈیو شیئر کرکے صورتحال کو سنگین بنا دیا گیا۔

ایسی صورتحال میں دو ہفتوں میں پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے ایک پریس کانفرنس اور ایک اعلامیہ سے واضح ہوگیا کہ سانحہ نومئی اور سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کے احتساب تک پی ٹی آئی کےلئے کوئی خیر کی خبر اتنی جلدی سننے کو نہیں ملے گی۔

ایسی صورتحال میں ستائیس مئی کوپاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس میں واضح کردیا گیا کہ, پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کوئی مذاکرات نہیں کرے گی۔ سیاسی فریقوں نے آپس میں مذاکرات کرنے ہوں تو کرسکتے ہیں۔

اور پھر تیس مئی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت ہونے والی کورکمانڈرز کانفرنس میں ایک بار پھر اس بات پر اتفاق پایا گیا۔ اور جاری اعلامیے کے مطابق مئی کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ 9 مئی کے مجرموں کے خلاف فوری، شفاف عدالتی اور قانونی کارروائی کے بغیر ملک سازشی عناصر کے ہاتھوں یرغمال رہے گا۔

ذرائع کے مطابق بیک ڈور رابطے مخلتف کارنرز سے شروع ہوئے تھے، پہلی کوشش ریٹائرڈ لفیٹینٹ جنرل نعیم لودھی نے شروع کی تھی۔ عمران خان اور مقتدرہ کے تحفظات ایک دوسرے کو پہنچائے تھے۔ دوسری کوشش سابق صدر عارف علوی نے شروع کی تھی۔

جب ان رابطوں پر کسی حد تک حکومت نے مثبت ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم نے صدر آصف علی زرداری کو کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ جبکہ اہم ترین ذرائع کا دعوٰی ہے کہ ایک برادر اسلامی ملک کے ذریعے بھی ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوگیا تھا،اور یہ کوششیں اس جدہ پلان کے جواب میں تھیں، جس کے تحت نواز شریف کی لندن سے واپسی طے ہوئی تھی۔

ذرائع کے مطابق سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت پیدا ہوئی جب مقتدرہ کی طرف سے ثالثی سے کہا گیا کہ عمران خان پہلے نومئی کے جرائم کا اعتراف کریں، اس پر معافی مانگیں، اور مستقبل میں حساس ادارے کے خلاف محاذ آرائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔

ذرائع کے مطابق ان شرائط کو تسلیم کرنے کےلئے سابق صدر عارف علوی نے عمران کو مشورہ دیا کہ ہم درمیانہ راستہ نکالیں گے، نومئی کے حوالے سے کسی ایسی تحریر کی کوشش کریں گے جس سے دونوں فریق راضی ہوجائیں، لیکن ذرائع کا دعوٰی ہے ۔

کہ پارٹی کے کچھ ہارڈ لائنرز نے عمران خان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ مقتدرہ کے حلقے آپ سے مذاکرات پر مجبور ہیں۔

اس لئے آپ اپنی شرائط منوانے کےلئے ان پر دباو بڑھائیں۔ ذرائع کے مطابق اس مشورے کے بعد عمران خان نے پہلے برطانوی اخبار میں آرٹیکل لکھا، جس کے بعد پاک فوج کے ترجمان کو ایسی پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ جس سے برف پگھلنے کی بجائے راستے میں ایک بڑا گلیشئر کھڑا ہوگیا۔

دوسرا مرحلہ اس وقت آیا جب عمران خان کو معلوم ہوگیا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ایک پراپرٹی ٹائیکون کو ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے پر مجبور کیا جارہا ہے، جبکہ انہیں توقع تھی کہ وہ اس کیس سے بہت جلد بری الذمہ ہوجائیں گے، عمران خان کو ایک بار پھر پارٹی کے کچھ ہارڈ لائنرز کی طرف سے دی گئی بریفنگ کے بعد بانی پی ٹی آئی نے متنازع وڈیو ٹویٹ کردی۔

جس کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر اس مقتدرہ کو ناراض کردیا، جن کے ساتھ مذاکرات پر وہ انحصار بھی کررہے تھے۔
اب گذشتہ دوتین روز میں آنے والی خبروں سے واضح ہوگیا ہے۔

کہ پارٹی قائد کے ٹویٹس اور حساس ادارے کے خلاف سوشل میڈیا مہم سے پارٹی کے کئی رہنما دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اور انہیں خود یقین نہیں آرہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی یہ سب کچھ کس کے مشورے سے کررہے ہیں۔

اس پر ترجمان پی ٹی آئی کو کہنا پڑا کہ شاید عمران خان کو ابھی کچھ عرصہ مزید اڈیالہ جیل میں رہنا ہوگا۔۔کسی نے کہا کہ عمران کی اجازت کے بغیر متنازع پوسٹ ہوئی ہے جبکہ عمران خان کے دست راست شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے یہ کہ کر پی ٹی آئی کا مقدمہ ہی الٹا دیا کہ بانی پی ٹی آئی کی اجازت کے بغیر ان کے سوشل میڈیا اکاونٹ سے کوئی پوسٹ ہوہی نہیں سکتی۔

دوسری جانب یہ بات بھی واضح ہے کہ عدلیہ کی طرف سے عمران خان اور دیگر قائدین کو ضمانتوں کی شکل میں ملنے والے ریلیف پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سیخ پا ہے۔ جس پر وزیراعظم کو کالی بھیڑوں کا بیان بھی دینا پڑا۔

اب اس سوال کا جواب تحریک انصاف کے قائدین خود ہی تلاش کرسکتے ہیں، جو کپتان اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کسی سے مذاکرات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا، اسی عمران خان نے توپوں کا رخ بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف کررکھا ہے۔

اور عمران خان کی طرف سے محاذ آرائی کا فیصلہ ان کا اپنا ہے، یا یہ فیصلے بھی وہی ہینڈل کررہے ہیں، جو بقول پی ٹی آئی ترجمان ان کے کپتان کا سوشل میڈیا اکاونٹ باہر سے ہینڈل ہورہا ہے۔

Leave a reply