مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری( میلسی)

رپورٹ :شہزاداحمد بھٹی
0
113

قوموں کے عروج و زوال میں کتابوں،لائبریریوں اور درسگاہوں کاہمیشہ غیر معمولی کردار رہا ہے۔ دنیا بھر کی لائبریریاں علمی و ادبی ورثےکو اگلی نسلوں میں منتقل کرتی آئی ہیں۔ ان لائبریریوں میں موجود کتابیں انسانی جدوجہد اور نامور ادبا کی دانشوری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔بلاشبہ لائبریریاں علم کا گہوارہ ہوتی ہیں ،جہاں علم کے متلاشی جا کر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں ۔یوں تو پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بے شمار لائبریریاں موجود ہیں، مگرآج پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقے کی ایک ایسی لائبریری کا تعارف کروانا مقصود ہے، جس کا شمار ملک کی سب سے پرانی اور ذاتی، یعنی پرائیوٹ لائبریریوں میں ہوتا ہے۔
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ یہ لائبریری میلسی کے نزدیک ایک گاؤں سردار پور جھنڈیر میں واقع ہے اور اس کی بنیاد 1890 میں سردار پور جھنڈیر کے ایک زمیندار ملک غلام محمد نے رکھی تھی۔ ملک غلام محمد کو کتابوں سے والہانہ عشق تھا اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں کتابیں جمع کیں۔ ان کی وفات کے بعد یہ کتابیں ان کے نواسے میاں مسعود احمد جھنڈیر کو وراثت میں ملیں۔ میاں مسعود احمد اور ان کے بھائی میاں محمود احمد نے اس کتب خانے کو مسعود جھنڈیر ریسرچ سینٹر کا نام دیا اور اسے پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری بنا دیا۔ یہ لائبریری پانچ ایکڑ کے خوبصورت پارک میں گھری ہوئی ہے، جس میں آبشاریں، فوارے اور خوبصورت آرائشی پودے ہیں۔
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری کا نیا کمپلیکس 2007 میں مکمل ہوا، جو 21 ہزار مربع فٹ ایریا پر محیط ہے۔ اس میں آٹھ کشادہ ہال، آڈیٹوریم، ملٹی میڈیا ورک سٹیشن، کمیٹی روم اور ایک ہاسٹل شامل ہے۔ اس لائبریری میں تقریباً ایک درجن ملازمین کام کر تے ہیں، جن میں لائبریرین، نائب قاصد اور مالی وغیرہ شامل ہیں۔
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میں اس وقت دو لاکھ 35 ہزار کتب، ایک لاکھ 25 ہزار رسائل اور چار ہزار 50 مخطوطات موجود ہیں۔ ان میں نوے فیصد کتابیں خریدی گئی ہیں ،جبکہ دس فیصد کتابیں مختلف لوگوں کی طرف سے تحائف کی صورت میں دی گئی ہیں۔اس لائبریری کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ یہاں قرآن مجید فرقان حمیدکے گیارہ سو تینتیس قلمی نسخے محفوظ ہیں۔یہ لائبریری مختلف محققین، اساتذہ اور طلبا کیلئے ایک اہم ریسرچ سینٹر کا درجہ رکھتی ہے۔1980 کے بعد ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی کے محققین کواس لائبریری سے مستفید ہونے کی خصوصی اجازت دی گئی، لہٰذا یہاں سالانہ سینکڑوں ملکی و غیر ملکی دانشور،مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبا و طالبات آتے ہیں۔
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی ایک منفرد لائبریری ہے۔ اس کو نہ کسی بین الاقوامی ادارے کی سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی کسی طرح کے اندرونی سرکاری فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری نے اپنی عظمت کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کر چکی ہے۔ 14 اگست 2014 کے موقع پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے لائبریری کے منتظم میاں غلام احمد جھنڈیر کو قومی ورثہ کی حامل تاریخی، دینی، ثقافتی اور ادبی کتابوں کو جمع اور محفوظ کرنے پر سول صدارتی تمغہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری پاکستان کی علمی، ثقافتی اور دینی ورثے کی حفاظت اور ترویج میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ لائبریری نا صرف تحقیقاتی مقاصد کیلئے اہم ہے، بلکہ یہ ایک قومی خزانہ ہے، جس میں انسانی جدوجہد اور علم کا عظیم ذخیرہ موجود ہے۔
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری ایک زندہ اور مثالی ادارہ ہے، جو علم کی روشنی کو نسل در نسل منتقل کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے،کیونکہ یہ ادارہ نا صرف کتابوں کا خزانہ ہے، بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بھی ہے ،جہاں سے نئی نسل علم حاصل کر کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس لائبریری کی خدمات اور عظمت کو دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ علم کی شمع ہمیشہ روشن رہے گی۔

Leave a reply