پاکستان میں عالمی حفاظتی معیارات کی پابندی کے بغیر گاڑیوں کی تیاری

فیچر: انوار ہاشمی
پاکستان کے شہریوں کی زندگیاں برباد کرنے والے آٹو مینوفیکچررز مافیا کے خلاف سیکنڈل اب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار تک تو پہنچ گیا ہے، مگر اسے دبانے کےلئے مافیا کے سیاسی سرپرست حرکت میں آگئے ہیں۔۔۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں طاقتور مافیا نے آٹومینوفیکچررز کو حصہ وصول کرنے کےلئے انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔اس لئے قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گاڑیوں کی تیاری کےلئے رائج 200 عالمی حفاظتی معیارات میں سے پاکستان کا مینوفیکچرر مافیا صرف 18 عالمی حفاظتی معیارات پر عملدرآمد کررہا ہے جبکہ 182 حفاظتی معیارات کے بغیر گاڑیاں تیار کرکے مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچ رہا ہے، اور حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے تو غیر محفوظ گاڑیوں کی تیاری پر شدید تشویش کا اظہار کرکے مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کردی ہے، مگر حکومت میں بیٹھے مینوفیکچرر مافیا کے سرپرست کیا ایسی کوئی کارروائی ہونے دیں گے؟
کمیٹی کے چیئرمین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں اموات کی سب سے بڑی وجہ غیرمعیاری گاڑیاں ہیں، اس حوالے سے انہوں نے دوسری تشویشناک بات یہ بتائی ہے کہ میٹیریل کے غیرمعیاری ہونے اور حفاظتی معیارات پورے نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں برآمد بھی نہیں کی جاسکتیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت اور چین سب سے بڑے برآمد کندگان ہیں، جو نہ صرف کم قیمت پر گاڑیاں فروخت کرتے ہیں، بلکہ انکےعالمی حفاظتی معیارات بھی گلوبل سٹینڈرڈ کے مطابق ہیں۔
کمیٹی میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تین بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیاں معیارات کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کی مرتکب ہیں۔۔اور کمیشن دیکر پروڈکشن اور فٹنس سرٹیفیکیٹ لے لیتی ہیں۔
عالمی سطح پر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کےلئے عالمی ادارے ’’ ایکریڈیٹیشن فیڈریشن‘‘ نے 200 حفاظتی معیارات مقرر کررکھے ہیں، انہیں پورا کئے بغیر کسی کمپنی کو گاڑیوں کی پروڈکشن اور فروخت کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری جانب یواین وہیکل سیفٹی ریگولیشنز1958 ایگریمنٹ بھی اس بات کا پابند بناتا ہے کہ گاڑیوں کی تیاری کےلئے عالمی حفاظتی معیارات پورے کئے جائیں۔
پاکستان میں آٹو مینوفیکچررز جن مقررعالمی حفاظتی معیارات کی سنگین خلاف ورزی کررہے ہیں ان کی تفصیلات دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہر خلاف ورزی جان لیوا ہے۔
سب سے زیادہ خلاف ورزی ایئربیگز کی دستیابی میں ہے، کئی گاڑیوں میں ڈبل ایئربیگز دیئے جارہے ہیں لیکن یہ تعداد معیار سے بہت کم ہے۔
اے بی ایس، ریئراورسائیڈ ایئربیگز جیسے حفاظتی فیچرز پڑوسی ممالک ایران، چین اور بھارت کی گاڑیوں میں عام ہیں، لیکن پاکستان میں انکی دستیابی محدود اور غیرموثر ہے۔
پاکستان میں بننے والی گاڑیوں میں ’’ ورک مین شپ‘‘ انتہائی ناقص ہوتی ہے۔
پاکستان میں بننے والی گاڑیوں میں میٹیریل خاص طور پر ٹن میٹیریل انتہائی غیرمعیاری ہوتا ہے، جس سے حادثات کے وقت گاڑی کا میٹیریل معمولی سا دباو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
چائلڈ ریسٹرینٹ سسٹم، سیفٹی بیلٹس، ایئربیگز، الیکٹرک پاورٹرین کے اسٹینڈرڈز کا فقدان ہے۔ مضبوط کرمپل زون بھی گاڑیوں سے غائب ہوتا ہے۔
پاکستان میں گاڑیوں میں مضبوط نگرانی اور ریکال سسٹم نصب نہیں ہے۔
سوزوکی مہران اور آلٹو پرانے ماڈل میں ایئربیگ اور اے بی ایس دونوں موجود نہیں۔
سوزوکی کلٹس اور ویگن آرکے اکثر ورژنز میں صرف ایک یا دو ایئربیگز دیئے گئے ہیں، جبکہ عالمی ماڈلز میں ایئربیگز کی تعداد چھ اور چھ سے زیادہ ہے۔ان گاڑیوں میں کرمپ زون اور سائیڈ امپیکٹ پروٹیکشن کافی کمزور ہے۔
ٹویوٹا کرولا لوئر ویرینٹس میں اکثر میں صرف دوایئربیگز جبکہ عالمی معیارکے مطابق چھ اور سات بیگز ہوتے ہیں۔ان گاڑیوں میں ایڈوانس ڈرائیور اسسٹ فیچرزADAS, Lane Assist, Collision, Warningنہیں لگائے گئے،جبکہ گلوبل معیارکے مطابق یہ ضروری ہیں۔
پاکستان میں ہونڈا اٹلس سٹی کے پرانے ڈیزائن میں صرف ڈوئل ایئربیگز ہیں جبکہ عالمی معیار کے مطابق کم از کم چھ ضروری ہیں۔
ہنڈا سوک کے کچھ ورژنز میں بہتر فیچر موجود ہیں لیکن عالمی معیار کے مطابق حفاظتی اسکور کم ہے۔
چینی برانڈ شنگان ایم جی اور بیسک کے نئے ماڈلز میں بہتر فیچر موجود ہیں لیکن کرش ٹیسٹنگ ریٹنگ پاکستانی اداروں نے شائع ہی نہیں کی۔۔۔ان کے سیفٹی سرٹیفیکیٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے صارفین کو ان گاڑیوں پر اعتماد نہیں ہے۔
لوکل کمرشل وہیکلز، وینز، پک اپس وغیرہ میں سیٖفٹی فیچرز نہ ہونے کے برابر ہیں، ایئربیگز، اے بی ایس، سیٹ بیلٹس اور چائلڈ لاکس تک موجود نہیں ہیں۔ٹریفک حادثات میں زیادہ اموات کمرشل گاڑیوں میں ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں تیار ہونے والی متعدد گاڑیوں کی این سی اے پی سرٹیفیکیشن نہیں ہوتی۔ جبکہ Lane departure Warning, Blind Spot Monitoring, Auto Emergency Braking سسٹم عدم دستیاب ہیں۔
پاکستان میں کار ساز کمپنیاں صرف بنیادی لیول پر سیفٹی فیچرز دیتی ہیں، سب سے کم گیج کا میٹیریل استعمال کرکے غیرقانونی منافع کماتے ہیں۔
پاکستانی مینوفیکچرڈ گاڑیاں اور درآمد شدہ گاڑیاں سفر کے لیے غیر محفوظ ہو چکی ہیں پاکستان میں اداروں کی جانب سے ”آٹو پالیسی” پر عملدرآمد ہی نہیں کیا جارہا اور حکومت آٹو مینوفیکچررز کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔
جیسے کہ سوزوکی اب یورپ اور جنوب مشرقی ایشیاء کی مارکیٹوں کے لیے 15 اسٹار گاڑیاں تیار کر رہی ہے۔ پاکستان میں اس نے 27 سالوں میں مہران کا 0 اسٹار سیفٹی ماڈل تیار کیا ہے۔ فی الحال جاپان، کوریا، مشرقی وسطی اور یورپ سے درآمد شدہ گاڑیاں حفاظی معیارات پر پورا اترتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ سب سے پہلے پاکستان میں موجود ہونڈا سی ویک ماڈل 34 اور ٹویوٹا کرولا ماڈل 36 میں سیٹ بیلٹ، پریشر سیٹ بیلٹ یاد کروانے والا سسٹم، ایئر بیگ، اے بی ایس، ای ایس سی، بیلٹ لوڈ لیمیٹر موجود ہے جبکہ ان دونوں پاکستانی ماڈلز میں بچوں کے لیے سیٹ بیلٹ، سر، گھٹنوں اور سینے کے لیے ایئر بیگ موجود نہیں ہیں۔ جبکہ پاکستانی ماڈل مہران 38 میں سرے سے ہی کوئی حفاظتی انتظامات موجود نہیں ہوتے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گاڑی چلانے والوں کے تحفظ کے لیے کچھ معیارات طے کیے ہوئے ہیں جن میں مہران بدقسمتی سے کسی بھی سیفٹی معیار پر پورا نہیں اترتی۔
پاکستان میں زیادہ تر استعمال شدہ جاپانی اور سمگل ہوئی گاڑیاں درآمد ہو رہی ہیں، پاکستان اس وقت صنعتی زوال کا شکار ہے، یہاں بننے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا مواد دو نمبر کوالٹی کا ہوتا ہے جو ایک ہی حادثے کے بعد گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے۔ آٹو مینوفیکچرنگ مافیا اس لئے سینکڑوں معیارات کو نظرانداز کررہا ہے کیونکہ ہر دور میں بااختیار سیاسی مافیا کو بھاری رشوت دیکر من مانی قیمت پر غیرمعیاری گاڑیاں فروخت کرتے ہیں، بے شرمی کی حد ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اپنی ہی عوام کو موت کی مشینیں بیچ رہے ہیں۔
پاکستان میں ایسا کوئی بھی ادارہ موجود ہی نہیں ہے جو پاکستان میں بننے اور باہر سے آنے والی گاڑیوں کی مکمل جانچ پڑتال کر سکے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی کوئی گاڑی باہر سے آتی ہے تو ڈیلرز ان گاڑیوں میں موجود سیفٹی فیچرز جیسے کہ ایئر بیگ اور اے بی ایس جو انکو مقامی منڈی میں بیچ کر منافع کماتے ہیں اور خریدنے والے صارفین ان ڈیلز کے ہاتھوں آسانی سے بےوقوف بنتے جاتے ہیں، بے وقوف بننے کی ایک وجہ ان صارفین کے پاس کم معلومات کا ہونا بھی ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کی گاڑیوں کے ضابطے نمبر 16, 17, 94, 95 اور عالمی تکنیکی ضابطوں جی آر ٹی 8 اور جی ٹی آر 9 پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں آٹو مینوفیکچرنگ کمپنیاں جن سیفٹی معیارات کو نظرانداز کررہی ہیں۔ان میں سے کچھ اس فہرست میں نمایاں ہیں۔
پاکستان میں گاڑیوں کی غیرمعیاری پروڈکشن کے باوجود ان کی قیمتیں پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔
پاکستان میں جو سوزوکی سوفٹ 47 لاکھ روپے میں دستیاب ہے، وہ بھارت کی کرنسی میں 6 سے نو لاکھ اور پاکستانی روپے کے مطابق بھارت میں 14 لاکھ میں فروخت ہوتی ہے۔ پاکستان میں سوزوکی کلٹس جو 32 سے 40 لاکھ میں ملتی ہے، بھارت میں اس کے برابر ماروتی سوزوکی کی قیمت 5 سے 6 لاکھ بھارتی کرنسی میں ہے۔
پاکستان میں گاڑیوں کی پروڈکشن، اسمبلنگ یا امپورٹ جتنا بڑا سیکنڈل ہے، اس کے پیچھے مافیا بھی اتنا ہی بڑا ہے۔۔جس ملک میں بندرگاہ پر آنے والی بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی بڑی کھیپ ایک رات میں ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ دیکر نکلوا ئی جاتی ہوں، اور سورج طلوع ہوتے ہی دوبارہ ٹیکس اور ڈیوٹی لاگو ہوجاتی ہو، اس ملک میں آٹو مینوفیکچرنگ جیسے مافیا کو کون ہاتھ ڈالے گا۔۔؟ اگر ارباب اختیار انہیں عالمی حفاظتی معیارات کا پابند نہیں بنائیں گے تو ہرمعصوم انسانی جان کے ضیاع کا بوجھ ارباب اختیار پر بھی برابر ہوگا۔