پنکچر لگانے والا بچہ اربوں ڈالر کا مالک کیسے بنا

0
24

کہا جاتا ہے دنیا میں غریب پیدا ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن زندگی بھر غریب رہنا بہت بڑی کمزوری ہے۔ حالات انسان کو سکھاتے ہیں اگر کوئی سیکھنا چاہتا ہو۔ دنیا کے بے شمار امیر ترین لوگوں کے پیچھے انکی مسلسل محنت اور بار بار کوشش کرنے کا عمل شامل ہوتا ہے۔ ہمت اور لگن کی ایک ایسی حقیقی کہانی آپکی زندگی بھی بدل سکتی ہے۔

ایک ایسا بچہ جو کاروں کا بے حد شوقین تھا لیکن ایک سائیکل بھی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا، جیب خرچ کےلئے ایک کوڑی تک نہیں ہوتی تھی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اس کی کمپنی کی بنائی ہوئی کاروں میں سوار ہوکر فخر محسوس کرنے لگے۔ بلکہ اس غریب بچے کی کمپنی ہوائی جہاز تک بنانے لگی۔ یہ غریب بچہ کوئی اور نہیں ہنڈا کمپنی کا مالک سر سوچیرو ہنڈا ہیں۔

بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں جاپان کے ایک پسماندہ گاوں کومیو میں 17 نومبر 1906 کو ایک بچے کی پیدائش ہوئی جس کا والد سائیکل مرمت کرکے گذر اوقات کرتا تھا۔ اس بچے کو ایک سکول میں داخل تو کرادیا گیا، مگر گھر کے کمزور معاشی حالات اور پریشانیوں کی وجہ سے وہ تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دے پاتا تھا۔ کئی روز تک تو اسکے پاس جیب خرچ کےلئے ایک کوڑی تک نہیں ہوتی تھی۔

نصاب میں کمزور سہی مگر اسکا ذہن فنی کاموں میں مہارت رکھتا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب اسکے پاس سکول جانے کےلئے اپنی سائیکل نہیں تھی، گاڑیوں کا شوق اس کے سر پر سوارہوگیا۔ اس نے کچھ عرصہ والد کے ساتھ سائیکل مرمت کا کام شروع کیا،وہ جب بھی والد سے کسی گاڑی کی بات کرتا تو اسکا والد اسے کہتا، ابھی آپ پنکچر لگائیں، ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔ لیکن کچھ کرنے کی لگن نے اسے پندرہ سال کی عمر میں ٹوکیو شہر جانے پر مجبور کیا۔

گاڑیوں کے شوق کی تکمیل اس نے اس انداز میں کی کہ وہ ٹوکیو میں ایک موٹر مکینک کے پاس کام سیکھنے لگا۔ سوتے جاگتے اس لڑکے کے ذہن میں کاروں کے ماڈل گھومتے رہتے۔ کار اسکی زندگی کی منزل تھی اور ہر وقت اسکے ذہن میں کوئی نہ کوئی پراجیکٹ موجود رہتا تھا۔ ٹوکیو میں چھ سال تک کام سیکھنے کے بعد اس نے واپس اپنے گاوں آکر موٹر مکینک کے طور پر کام شروع کردیا۔ وہ ہر قسم اور ہر ماڈل کی گاڑی ٹھیک کرلیتا تھا، بلکہ اب تو بڑے بڑے موٹر مکینک اس سے مشورہ لینے لگے۔ زندگی میں ناکامی اور کامیابی کا سلسلہ چلتا رہا۔

اسکی زندگی میں وہ مرحلہ آیا جب اس نے اپنی منزل کے حصول کےلئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور 1937 میں 31 سال کی عمر میں اپنی کمپنی ٹوکی سیکی کی بنیاد رکھی۔ اس کمپی نے اس وقت کی معروف کمپنی ٹویوٹا موٹرز کو رنگ پسٹن بنا کر دینے کا کام شروع کیا۔

ابھی زندگی میں امتحان باقی تھے، اسی دوران پہلی عالمی جنگ شروع ہوگئی، امریکی بمباری سے اسکی فیکٹری بھی تباہ ہوگئی۔ سب کچھ بکھر گیا۔وہ ایک بار پھر فاقوں پر مجبور ہوگیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے تباہی سے بچے ہوئے سامان کو جمع کیا، تنکا تنکا جوڑا اور اکتوبر 1946 میں ہونڈا ٹیکنیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھی۔ وہ باہمت لڑکا سر سوچیرو ہونڈا ہی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہنڈا کمپنی کے بزنس نیٹ ورک کا مالک ہے۔

یہ اس غریب لڑکے کی کمپنی ہی ہے، جس نے 1948 میں دنیا کی پہلی مکمل سائیکل تیار کی جو موٹر سے چلتی تھی، ایک سال کے اندر ہی 1949 میں انہوں نے ٹوسٹروک اور تین ہارس پاور انجن والی موٹرسائیکل تیار کرلی۔ ان مصنوعات کو جاپان میں ایک لینڈ مارک کا درجہ حاصل ہوگیا۔

اس نوجوان نے کام کی لگن کو رکنے نہیں دیا۔ اسکی زندگی میں ناممکن کچھ نہیں تھا۔ 1959 میں اسکی کمپنی امریکہ میں پہلا شوروم کھولنے میں کامیاب ہوئی اور پھر دنیا بھر میں کامیابی کے دروازے کھلتے گئے۔ جو کمپنی ٹویوٹاکو رنگ پسٹن بنا کردیتی تھی۔ ٹھیک بائیس سال بعد اس کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی۔ ہنڈا کی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں دنیا بھر میں ڈیزائن ، مضبوطی اور جدت کی وجہ سے بے حد پسند کی جانے لگیں۔

آج اس کمپن کا بزنس پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، یہ کمپنی موٹرسائیکل سے لیکر ہوائی جہاز تک بنا رہی ہے۔ دنیا کی کئی معروف صنعتوں میں جدید جنریٹر اور درجنوں ٹیکنالوجیز اس کمپنی کی تیار کردہ ہیں۔ ایک سائیکل نہ خریدپانے والا بچہ آج سے ایک سال پہلے دوسو تیرہ بلین ڈالر اثاثوں کا مالک تھا۔

سر سو چیرو ہنڈا نے ایک گاڑی خریدنے کا خواب دیکھا تھا، مگر اس کی لگن نے اسے گاڑیوں سے بھی آگے جہاز بنانے والی کمپنیوں کا مالک بنا دیا۔ غریب بچے سرسو چیرو ہنڈا کی کہانی سے سبق ملتا ہے کہ مسلسل جدوجہد سے آپ خوابوں کی تعبیر پاسکتے ہیں۔

Leave a reply