ہم شاید آخری خوش قسمت لوگ ہیں

بلاگ: انوار ہاشمی
ہم شاید آخری لوگ ہیں، جودوتہذیبوں کے چشم دید گواہ ہیں، ہزاروں سال سے چلی آرہی تہذیب، سرخ رنگ کے پوسٹ بکس میں خط ڈالنے سے لیکر آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کے کمالات دیکھنے والے ہم شاید آخری لوگ ہیں۔ وہ مٹی کے بنے گھر، کچے صحن، گھڑے کا پانی، ٹاٹ والے سکول، تختی اور سلیٹ، سیاہی کی دوات اور کانے سے بنا قلم، گاچی کی بھینی خوشبو، سٹاپو، پیٹھو گرم، چھپن چھپائی، کنچے اور کوکلا شپاتی جیسے کھیل۔ صحن میں چارپائیوں کی قطار، مٹی کی ہانڈی اور لسی کی مدھانی۔وہ کھیتوں میں بیل کے ذریعے چلتے ہل، درانتی سے گندم کی کٹائی اور گاوں کی چوپال پرحقے کی گُڑگڑاہٹ میں بزرگوں کی محفل۔ شام ڈھلتے ہی مٹی کے تیل سے جلنے والی لیمپوں کی ہلکی لَو۔ریڈیو پر فریکوئنسی سیٹ کرتے کرتے اورآسمان پر ستارے گنتے گنتے نیند کی آغوش ۔اس خوبصورت زندگی سے لطف اندوز ہونے والے ہم شاید آخری لوگ ہیں۔
انیس سو پچاس سے لیکر انیس سو نوے کے درمیان پیدا ہونے والے ہم خوش نصیب لوگ ہیں۔جنہوں نے ہزاروں سال سے چلی آرہی اس تہذیب اور روایات کو دیکھا ہے، جب استاد کا ڈر اور احترام حد درجہ تھا، اور ابا جان گھر میں داخل ہوجائے تو احترام میں سکوت طاری ہوجاتا تھا، بہو بیٹیاں دوپٹہ سنبھالنے لگ جاتی تھیں۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جو باقاعدگی سے پوہ پھوٹتے اور سورج کی پہلی کرن دیکھتے تھے، ہم وہ آخری لوگ ہیں جو عشا کی نماز کے بعد نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔آج سمارٹ فون نے نئی نسل سے راتوں کی نیند اور سحرخیزی چھین لی ہے۔ آج ہم پرانی اور چھوٹی اینٹوں سے بنے پرانے بوسیدہ مکان اور لکڑی کے کواڑوں پر لگی زنجیر والی کنڈی دیکھ کر اشکبار ہوجاتے ہیں۔ جب ہم جدید ایئرکنڈیشنڈ گھروں سے نکل کر کبھی پرانی گلیوں میں چلے جائیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری روح یہاں بھٹک رہی ہے اور ہمارے بے جان جسم جدید سہولتوں والے گھروں میں شوپیس کی طرح سجے ہیں۔
1950 سے 1990کے درمیان پیداہونےوالےہم خوش نصیب لوگ ہیں، کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نےمٹی کےبنےگھروں میں بیٹھ کرپریوں کی کہانیاں سنیں،جنہوں نے اپنےپیاروں کےلئےاپنےاحساسات کوخط میں لکھ کربھیجا،اور ہفتہ بھر ڈاکئے کا انتظار کیا۔ ہمارےجیساتوکوئی بھی نہیں اور ہم وہ آخری لوگ ہیں جو خط سےموبائل تک کےسفرمیں قدیم سےجدید ہوگئے۔ہمیں بڑے اور کچے صحن میں قطار میں بچھی چارپائیاں اور انکے قریب لکڑی کے سٹینڈ پر سجے ٹھنڈے پانی کے گھڑے بے حد یاد آتے ہیں۔گاوں کے چوراہے یا شہر میں گلی کے نکڑ پر دکان جسے ہم ہٹی بھی کہتے تھے، بچوں کےلئے سب سے بڑی سوغات ’’ مَرُنڈا، ٹانگری، اوربغیر ریپرکے رنگ برنگی دیسی کینڈیاں جبکہ بڑوں کےلئے بنٹے والی سوڈا بوتل ہی سب سے بڑی ریفرشمنٹ ہوتی تھی۔اب اسکی جگہ پزا، شوارما، اور انگنت فوڈ برانڈز نے لے لی ہے۔مگرہٹی پر جانے کا مزا ڈیپارٹمنٹل سٹورکی چکا چوند ہلچل میں موجود نہیں ہے۔ عیدالفطر کی رات سال میں سلوایا گیا واحد کپڑوں کا جوڑا اور واحد جوتے دیکھ دیکھ کر نیند اڑجاتی تھی۔ عید کے روز محلے میں بننے والی جلیبیوں کی مٹھاس اور گلی میں جھولوں کے نام پر بچوں کی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ پنگوڑوں کے مزے ناقابل فراموش ہیں۔جنکی جگہ اب ونڈر لینڈز نے لے لی ہے۔
کیا زمانہ تھا جب مائیں خودبچوں کےکپڑےسیتی تھیں، بازارسےاُون کے گولے منگوا کرسارادن جرسیاں بُنتی تھی۔ لڑکے لڑکیاں درختوں پر باندھی گئی پینگ پر اونچے جھولے لیتے تھے، یا بچیوں کا سب سے بڑا شوق کپڑے سے گڑیا گڈا بنانا اور انکی شادی کرانا تھا۔سادہ زندگی مگر خلوص سے بھری زندگی۔گھروں کی دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں، مگرحیا کا معیار اونچا تھا، شام کو خواتین دیوار کے اس پار پڑوسنوں سے حال احوال بھی پوچھ لیتی تھیں اور کھانے کی پلیٹ سے بارٹر بھی کرلیتی تھیں۔دیواروں سے جڑے یہ رشتے وٹس ایپ میسیجز نے چھین لئے ہیں۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے حقیقی خوشی سے بھری شادیاں دیکھی ہیں، جب ایک ہفتہ قبل رشتہ دار گھروں میں آکر براجماں ہوجاتے ، ناگواری کی بجائے دل خوشی سے شاد ہوجاتے تھے۔سادہ مگر خوشی سے لبریز رسم و رواج، پرات اور ڈھولک پر گھر کے صحن میں بڑی بی اوں کی نگرانی میں خاندان اور محلے کی لڑکیوں اور خواتین کے روایتی گانےاور گھر کے صحن میں دولہا کے سہرے کی تقریب اور گھڑولی کی نہ بھولنے والی رسم۔ اب ماڈرن شادی ہالوں میں سٹیٹس کا مقابلہ،مگرشادی کی وہ روایتی رونق ناپید ہوچکی ہے۔ہم وہ آخری لوگ ہیں، جو ہزاروں سال پرانی چلی آرہی تہذیب کی یادیں سینوں میں سمیٹ کر اپنے آباو اجداد کے اس دیس کی طرف سفر پر گامزن ہیں، جہاں پہنچنے کے بعد ہمارے پیچھے مشینی انسانوں اور جذبات سے خالی اے آئی کی دنیا ہوگی اور پھر ان پرانی یادوں اور کنڈی لگے کواڑوں کی اہمیت کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔