کسی بھی ملک میں علیحدگی پسندوں کی مزاحمتی تحریکوں کے بارے تو سنا تھا کہ اگر کوئی ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہئے تو اسے شامل کرلیا جائے، مگر یہ بات پہلی بار آرہی ہے کہ ان ڈاکووں کو قومی دھارے میں شامل کرلیا جائے، جو کئی سالوں سے نہ صرف شہریوں کو لوٹ رہے ہیں، بلکہ پولیس اور شہریوں کو تاوان کےلئے اغوا کرنے کے سینکڑوں واقعات میں ملوث ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ قومی دھارے میں شامل کرنے کی یہ تجویز بلکہ ہدایت کسی اور کی طرف سے نہیں صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے آئی ہے۔ انہوں نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کی ہے جب سندھ پولیس اور ڈاکووں کے گٹھ جوڑ کی خبریں منظر عام پر آچکی ہیں، یہ ڈاکووں بااثر سیاستدانوں کےلئے کرایے پر بھی کام کرتے ہیں، یہ سیکنڈل بھی سامنے آچکے ہیں۔
صدر مملکت نے یہ کب اور کہاں فرمایا ہے۔
سکھر میں صدر آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت سندھ میں سیکیورٹی امن و امان کی صورتحال پر اجلاس ہوا جس میں آئی جی سندھ نے کچے اور صوبے کی سیکیورٹی صورت حال پر بریفنگ دی۔
شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کچے کے جرائم پیشہ افراد کو بتدریج قومی دھارے میں لایا جائے جبکہ گھناؤنے جرائم میں ملوث پیشہ ور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ کچے کے ڈاکووں کو ملک کا ذمہ دار اور کارآمد شہری بنانا چاہیے۔
کچے کے علاقے کے قبائلی سرداروں پر مشتمل ایک قومی جرگہ بلایا جائے جو امن کے فروغ، سیکورٹی صورتحال بہتر بنانے کیلئے مقامی آبادی سے مذاکرات کرے۔یہ ہدایت انہوں نے آئی جی سندھ کے علاوہ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کو بھی دی جو وہاں موجود تھے۔
کچے کے ان ڈاکووں کےلئے نرم گوشہ ایسے وقت میں رکھا جارہا ہے، جب سندھ سے موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق سندھ میں کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکو ایک سال میں 400 افراد کو اغوا کرچکے ہیں,رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں 2 یرغمالی مارے جاچکے ہیں,سندھ حکومت اور پولیس کے بلند و بانگ دعوؤں کے اور 250 آپریشنز کے باوجود کچے میں مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو، بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں,ڈاکوؤں کے حملے میں 11 پولیس اہلکار شہید اور اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پولیس کارروائی میں 23 ڈاکو ہلاک اور 160 گرفتار کیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق بالائی سندھ کے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35 سے 40 افراد ڈاکووں کی تحویل میں ہیں,سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں اس وقت ڈاکوؤں کی تحویل میں 200 سے زائد افراد موجود ہیں,دونوں ڈویژنز میں ہر ماہ 20 سے 30 افراد تاوان کے عوض آزاد ہوتے ہیں۔
متاثرہ علاقوں کے شہری تو پہلے ہی پکار پکار کر کہتے رہے ہیں کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے پکے کے ڈاکو، کچے کے ڈاکووں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ورنہ چند دیہات کے اندر دو تین دہائیوں سے مورچے بنائے بیٹھے ان ڈاکووں نے اپنی ریاست قائم کررکھی ہے۔ ایک خاص سیزن میں میں انکے خلاف آپریشن کے بعد پورا سال انہیں فری ہینڈ دے دیا جاتا ہے۔۔
اب جب ہائی لیول پر دھشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہورہا ہے، اور ان شورش زدہ علاقوں کی بھی عزم پاکستان آپریشن آپریشن کے دوران صفائی ہونے والی ہے، ایسے میں ڈاکووں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی تجویز سینکڑوں متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔۔شہریوں کا کہنا ہے کہ اب تو کچے کے ڈاکووں اور پکے کے ڈاکووں کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کا وقت ہے۔
بنگلہ دیش سےعبرتناک شکست :پاکستان کرکٹ کا جنازہ
اگست 26, 2024ٹک ٹاک حکمرانوں کے بدلتے رنگ
اگست 22, 2024آکسفورڈ یونیورسٹی الیکشن: عمران خان امیدوار
اگست 22, 2024
Leave a reply جواب منسوخ کریں
اہم خبریں
پاکستان ٹوڈے ڈیجیٹل نیوز پر شائع ہونے والی تمام خبریں، رپورٹس، تصاویر اور وڈیوز ہماری رپورٹنگ ٹیم اور مانیٹرنگ ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں۔ ان کو پبلش کرنے سے پہلے اسکے مصدقہ ذرائع کا ہرممکن خیال رکھا گیا ہے، تاہم کسی بھی خبر یا رپورٹ میں ٹائپنگ کی غلطی یا غیرارادی طور پر شائع ہونے والی غلطی کی فوری اصلاح کرکے اسکی تردید یا درستگی فوری طور پر ویب سائٹ پر شائع کردی جاتی ہے۔