کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں، جسٹس جمال

سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نےریمارکس دیتےہوئے کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزاروں کی جانب سےوکیل فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محمدعلی مظہرنےسوال کیاکہ کتناٹیکس نافذہوگا اسکا فیصلہ گزشتہ سال کے اثاثوں پر ہوتا ہے۔
جس پر وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ انکم ٹیکس میں یہ تصور ہے کہ جیسے جیسے آمدن میں اضافہ ہو گا ویسے ویسے ٹیکس بڑھے گا۔ آمدن کے حساب سے ایف بی آر کابھی مائنڈ سیٹ یہی ہے کہ انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا، 1979 آرڈیننس میں ٹیکس سے متعلق دو تصور تھے، ایک تشخیصی ٹیکس اور دوسرا انکم ٹیکس ہوتا ہے، تشخیصی ٹیکس سالانہ ہوتا ہے اور انکم ٹیکس گزشتہ سال کے موازنے میں نافذ کیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کے حق میں فیصلہ دیں تو خوش ہوتے ہیں خلاف دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ بشر ہیں فیصلہ حق میں آئے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں، خلاف آئے تو برا کہتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ تشخیصی ٹیکس کب نافذ ہو گا کب نہیں؟
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ آپ معزز جج صاحبان آئین کے محافظ ہیں، آرڈیننس میں لکھا ہے کہ تشخیص ایک سال بعد ہو گی، میں خود بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں اور وہاں بھی میں یہی کہتا رہا ہوں، پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
جسٹس محمدعلی مظہرنےسوال کیاکہ ٹیکس نافذ کرتے ہوئے آپ کس طرح کے انصاف کی توقع رکھتے ہیں؟
وکیل فروغ نسیم نےجواب دیاکہ آرٹیکل 10 اے قدرتی انصاف کے برابر ہے، قدرتی انصاف سے مراد صرف یہ نہیں کہ سننے کا حق دیا جائے۔
بعدازاں عدالت نےکیس کی مزیدکارروائی کل تک ملتوی کردی۔