سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا، جسٹس عائشہ ملک

26ویں آئینی ترمیم کےکیس میں ریمارکس دیتےہوئے جسٹس عائشہ ملک نےکہاکہ یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نےسماعت کی ، آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندو خیل ،جسٹس محمد علی مظہر شامل جبکہ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کاحصہ تھیں، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ میں شامل ہیں۔ وکیل خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل خواجہ احمد حسین کےدلائل:
وکیل خواجہ احمد حسین نےدلائل دیتےہوئےکہاکہ کیس کے فل کورٹ کی جانب سے سنے جانے پر دلائل دوں گا،اس ادارے کی ساکھ کا انحصار 26 ویں آئینی ترمیم پر نہیں ہے ،اس کیس کو دوسرے آزاد بینچ کی جانب سے سنا جانا چاہیے ۔
جسٹس جمال مندوخیل نےسوال کیاکہ کیا آپ اس بینچ پر اعتماد نہیں کررہے ؟
وکیل خواجہ احمدحسین نےکہاکہ 191 پر فیصلہ اوریجنل فل کورٹ کی جانب سے ہونا چاہیے ۔میں نہیں کہہ رہا کہ یہ بینچ آزاد نہیں ۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نےکہاکہ آپکی استدعا میں اوریجنل فل کورٹ کا لفظ نہیں ہے، جسٹس جمال مندو خیل بولےکہ آپ نے ہی کہا کہ کیس دوسرے آزاد بینچ کے سامنے جانا چاہیے،کیا ہم ججز بھی اس آزاد بینچ کا حصہ ہوں گے ؟ جسٹس امین الدین خان نےسوال کیاکہ کیا چیف جسٹس اس آزاد بینچ کا حصہ ہوں گے؟
وکیل خواجہ احمدحسین نےجواب میں کہاکہ چیف جسٹس بلکل اس کا حصہ ہوں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےاستفسارکیاکہ اگر ہم کیس نہیں سن سکتے تو حکم کیسے دے سکتے ہیں ؟
وکیل خواجہ احمدحسین نےکہاکہ نئے آنے والے ججز کو فیصلے میں محفوظ کیا جا سکتا ہے ،عدالت حکم کیلئے راستہ کیوں مانگ رہی ہے ، ابھی تک تو وفاق نے فل کورٹ یا حکم دینے پر اعتراض نہیں اٹھایا ۔
26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کےبینچ کےسربراہ جسٹس امین الدین خان نےکہاکہ ہر وکیل کا اپنا موقف ہے ،ہم آئین پڑھ کر سوال کررہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر بولےکہ اگر 16 ججز آتے تو وہ ریگولر بینچ بن جائے گا ۔
وکیل خواجہ حسین احمد نےکہاکہ جی وہ آئینی بینچ نہیں ہوگا ۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ کل ڈاکٹر عدنان نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کی اپنی جگہ اور بینچ کی اپنی جگہ ہے ، آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بینچز کا کینسپٹ کب سے ہے ، جسٹس محمد علی مظہربولےکہ کل کچھ وکلا نے سپریم کورٹ کے ججز کا کہا ہے کہ وہ بھی بیٹھ سکتے ہیں ۔
وکیل خواجہ حسین احمد نےکہاکہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ راستہ دکھائیں ، یہ سپریم کورٹ کا ایک بینچ ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نےہدایت کرتےہوئےکہاکہ آرٹیکل 191 اے ون کو 191 اے تھری کیساتھ ملا کر پڑھیں ،یہ آرٹیکل کیا کہتا ہے؟یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا،ان آرٹیکل میں کوئی قدغن نہیں ہے، یہ پروسیجرل آرٹیکلز ہیں،یہ آرٹیکل بینچز پر تو قدغن لگاتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ پر نہیں،ہم ان آرٹیکلز کو ایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ آرٹیکل مکمل طور پر قدغن لگاتے ہیں،قدغن کہاں ہے؟ کیا ہم ان کی تشریح یوں کر سکتے ہیں کہ فل کورٹ معاملہ سن سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ آپ کے ابتدائی دلائل میں آپ نے کہا کہ فل کورٹ آئینی بینچ نہیں رہے گا،آپ نے کہا 16 رکنی بینچ ایک ریگولر بینچ ہوگا، آپ کے ان دلائل سے تو میں مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں۔جسٹس شاہد بلال حسن بولےکہ میرا سوال ہے کہ یہ کلیئر ہی نہیں ہوسکا کہ ہمارا اختیار ہے بھی سہی یا نہیں ۔
وکیل خواجہ حسین احمد نےکہاکہ اس بینچ کے پاس اختیار ہے کہ وہ فل کورٹ کا آرڈر کرسکتا ہے ،میری استدعا بھی یہی ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سے پہلے والا اصل فل کورٹ سنے ، آپ کے ہاتھ بندھے ہوں تب آپ فل کورٹ کا آرڈر نہیں دے سکتے ، آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں اس لیے آپ فل کورٹ کا آرڈر کرسکتے ہیں ۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ بینچ فل کورٹ کو کیس ریفر کرسکتا ہے مگر ریگولر بینچ نہیں بنا سکتا ۔
وکیل خواجہ حسین احمد نےکہاکہ جی بالکل آپ ریگولر بینچ کو کیس نہیں بھیج سکتے لیکن فل کورٹ کو بھیج سکتے ہیں،اگر کل کوئی 27 ویں ترمیم ہوگئی اور آپ کے اوپر کوئی سرکاری افسر لگا دیا گیا تو پھر آپ یہ معاملہ نہیں دیکھیں گے ؟
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ ہم اب بھی کیس حقائق کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں۔
وکیل خواجہ حسین احمد نےکہاکہ اگر آئینی ترمیم کے لوازمات پورے نہیں ہوئے تو یہ بینچ بھی نہیں بن سکتا ہے ، اس وقت میری استدعا یہ ہے کہ یہ کیس فل کورٹ کو بھیجا جائے ،آپ کے اختیارات آپ سے چھین نہیں لیے گئے، کل 27ویں ترمیم میں پارلیمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے اوپر ایک ایگزیکٹو افسر بیٹھے گا، کیا آپ لوگ اس فیصلے کو دیکھ نہیں سکیں گے؟ بالکل دیکھ سکیں گے،آپ کہہ رہے ہیں راستہ دکھائیں، میں کہہ رہا ہوں کہ راستہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ آپ یہ دلائل مرکزی کیس میں دیں گے، ہم آپ کو سنیں گے۔
وکیل خواجہ حسین احمد نےکہاکہ میری رائے کے مطابق تو اس ترمیم کو پاس کروانے کا پروسیجر ہی فالو نہیں ہوا۔
جسٹس محمد علی مظہر نےریمارکس دیتےہوئےکہاکہ یہ سوال میرٹ پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پوچھا جاسکتا ہے، جسٹس شاہد بلال حسن بولےکہ آپ اپنی اس درخواست کے ذریعے مرکزی ریلیف مانگ رہے ہیں۔
وکیل خواجہ احمدحسین نےکہاکہ میری درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں ہے،میری درخواست میں یہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کی استدعا ہے۔
وکیل خواجہ حسین احمد کے دلائل مکمل ہوگئے ،جبکہ جسٹس ریٹائرڈشاہد جمیل کل اپنے دلائل دیں گے عدالت نے کیس کی مزیدکارروائی کل تک ملتوی کردی۔