سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا نیاشاہکار،ایلن مسک کو ٹکر دینے کیلئے چینی کمپنی میدان میں آگئی

0
31

ایلون مسک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی اسٹارلنک پاکستان میں رجسٹریشن کے بعد لائسنس کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن ایلن مسک کو ٹکر دینے کےلئے چین کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی نے بھی پاکستان میں رجسٹریشن کرالی ہے۔
پاک چین دوستی کے تناظر میں کیا ایلن مسک کی اسٹار لنک کا پاکستان میں مستقبل خطرے میں ہے، یا وہ چینی کمپنی کو اس خطے میں مات دینے میں کامیاب ہوگا۔اس کا اندازہ سب سے پہلےلائسنس حاصل کرنے کے بعد ہوگا۔
اطلاعات کے مطابق چین کی ’’ شنگھائی اسپیس کام سیٹلائٹ ٹیکنالوجی لیمیٹڈ ‘‘ کمپنی کی سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹریشن ہوچکی ہے۔
چینی کمپنی نے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کےلئے آفر دے رکھی ہے کہ وہ اسٹار لنک کمپنی سے کم ریٹ دے گی۔ چین کی ’’ ٹرپل ایس ٹی نامی کمپنی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ رواں سال دوہزار پچیس میں انٹرنیٹ کےلئے اپنا سیٹلائٹ زمین کے مدار میں بھیجے گی، جبکہ ایلن مسک کی کمپنی اسٹار لنک کا سیٹلائٹ پہلے ہی زمین کے قریب ترین مدار میں موجود ہے۔
چین کی کمپنی کا دعوٰی ہے کہ وہ دوہزار ستائیس تک پاکستان سمیت دنیا بھر کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ دینے کے قابل ہوجائے گی، جبکہ امریکہ چین کی اس پیش رفت کو روکنے کےلئے کوشاں ہے۔ چین کا دعوٰی ہے کہ وہ دوہزار تیس تک تیس ہزار کے قریب چھوٹے بڑے سیٹلائٹ خلا میں پہنچائے گا۔
اسٹار لنک کمپنی بھی پاکستانی صارفین کےلئے بہتر پیکیج کی پیشکش دے رہا ہے تاہم اس امریکی کمپنی کو اس خطے میں لینڈنگ کےلئے سیکورٹی کلیئرنس کے سخت مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے، جبکہ پاک چین دوستی کی پراعتماد فضا میں چینی کمپنی کو سیکورٹی کلیئرنس میں آسانی ہوگی، تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کیا وہ اسٹار لنک سے پہلے پاکستان میں انٹرنیٹ سروس دے پائے گی۔
اس سے قبل سمندر میں فائبر کیبل کے ذریعے دنیا کو انٹرنیٹ فراہم کرنے میں امریکہ ، جاپان اور فرانس کی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔اور چینی کمپنیوں کو سمندری راستے دینے میں امریکہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن اب سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروسز کےلئے چین بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے مقابلے کےلئے میدان میں کھل کر آگیا ہے۔ اس وقت ایک اعشاریہ چار ملین کلومیٹر فائبر کیبل سمندروں سے گزر کر دنیا کے کئی ممالک کو سروس دے رہی ہے۔امریکہ نےآبدوزوں کے ذریعے چینی کمپنیوں کی کیبل کے راستے میں رکاوٹ پیدا کررکھی تھی۔ تاہم چین نے ان ممالک کے ساتھ انٹرنیٹ سروس جاری رکھی، جن کے ساتھ ان کے تجارتی تعلقات بہتر تھے۔
ایشیا میں جہاں بینڈوتھ کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی تھی، چائنا ٹیلی کام، چائنا موبائل اور چائنا یونی کام اس وقت کئی بڑے کیبل پروجیکٹس کو لیڈ کر رہی ہیں، ان میں سے دو چین، سنگاپور اور جاپان سے منسلک ہیں۔
افریقا اور یورپ کے ارد گرد چینی کمپنیوں نے یہ بزنس کامیابی سے جاری رکھا، جبکہ باقی خطوں میں امریکہ ان کےلئے رکاوٹ بنا رہا۔
چائنا یونی کام سیل لائن میں ایک بڑا سرمایہ کار تھا۔ اس نے برازیل کو کیمرون سے جوڑنے والی 5,800 کلومیٹر کی کیبل بچھانے پر 2020 میں کام شروع کیا۔
عالمی کمپنیوں نے اعتراف کیا ہے کہ بیجنگ کے پاس دوسرے ٹولز ہیں جو وہ بین الاقوامی پابندیوں سےبچنےکےلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اب دنیا کے کئی ممالک کو خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ سمندر میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے جاسوسی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔اس لئے اب کیبل بچھانے والی کمپنیوں کو اجازت لینے اور سیکورٹی کلیئرنس میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا رہاہے۔
ٹیکنالوجی کی عالمی سرد جنگ کے اس ماحول میں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں ایلن مسک کے ادارے کی کمپنیوں کے بارے چین کو شدید خدشات ہیں، جبکہ پاکستان کے ساتھ چین کے سیکورٹی مفادات مشترک ہیں۔اس لئے جنوبی ایشیا کے زیادہ ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیٹلائٹ نیٹ کےلئے چین زیادہ قابل اعتماد ہے۔کیونکہ خلا سے امریکی کمپنیوں کو لینڈنگ رائٹس دینے سے سیکورٹی اور پرائیویسی کے خطرات ہمیشہ رہیں گے۔

Leave a reply