کیاملٹری کورٹ میں بھی ملزم کوفیورٹ چائلڈسمجھاجاتاہے؟جسٹس جمال خان مندوخیل

0
29

فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کےکیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نےریمارکس دئیےکہ کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کوفیورٹ چائلڈسمجھاجاتاہے؟
فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کےخلاف انٹراکورٹ اپیل پرجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نےسماعت کی۔وزارت دفاع کی طرف سےوکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث نےرول 19کاحوالہ دیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نےکہاکہ گزشتہ روزبھی سوال یہی تھاکہ تفتیش چارج سےپہلےہوتی ہے؟
جس پرجسٹس محمدعلی مظہرنےکہاکہ پہلےتفتیش ہوتی ہےپھرچارج ہوتاہے۔
وکیل خواجہ حارث نےدلائل دیتےہوئے کہاکہ قانون میں واضح ہےکہ ٹرائل اورفیئرٹرائل میں کیافرق ہے،چارج فریم ہونےکےبعدشامل تفتیش کیاجاتاہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےریمارکس دئیےکہ اگرکوئی فیصلہ ہوتوکیاآرڈرکےخلاف کوئی ریمیڈی کرسکتےہیں،مطلب اس میں بھی وہی سزائیں ہوتی ہیں۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نےکہاکہ جج ایڈووکیٹ جنرل حلف اُٹھاتاہےغیرجانبداری کوبرقراررکھےگا،سپریم کورٹ اس سماعت میں ہرکیس کاانفرادی حیثیت سےجائزہ نہیں لےسکتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ ملٹری ٹرائل کس بنیادپرچیلنج ہوسکتاہے۔
وکیل خواجہ حارث نےدلائل میں کہاکہ مجازعدالت نہ ہو،بدنیتی پرمشتمل کارروائی چلے،اختیارسماعت سےتجاوزہوتوٹرائل چیلنج ہوسکتاہے،کوئی ملزم اقبال جرم کرلےتواسےرعایت ملتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ اقبال جرم تومجسٹریٹ کےسامنےہوتاہے۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نےجواب دیتےہوئے کہاکہ وہ معاملہ الگ ہے۔
جسٹس حسن اظہررضوی نےکہاکہ ملٹری ٹرائل پرملزم کوسرکاری خرچ پروکیل دیاجاتاہے؟
وکیل خواجہ حارث نےمؤقف اپنایاکہ وکیل کرنےکی حیثیت نہ رکھنےوالےملزم کوسرکاری خرچ پروکیل دیاجاتاہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےریمارکس دئیےکہ عام طورپرتوملزم عدالت کافیورٹ چائلڈہوتاہے،کیاملٹری کورٹ میں بھی ملزم کوفیورٹ چائلڈسمجھا جاتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نےکہاکہ آرمی ایکٹ کےرولزکےتحت ملزم کومکمل تحفظ دیا جاتاہے۔
جسٹس نعیم اخترافغان نےکہاکہ بطورچیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کےفیصلے کےخلاف اپیلیں سنی ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ آرٹیکل 184کی شق تین کاکیس عدالت کےسامنےنہیں ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے، جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نےسوال اٹھایا کہ اگر ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں اس غلطی کی نشاندہی کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ملتا ہے۔جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کی تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں۔
خواجہ حارث نےموقف اختیارکیاکہ تمام پروسیجر فالو ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رٹ میں کوئی ایسی اتھارٹی تو ہو جو پروسیجر کو دیکھ سکے اور اسکا جائزہ لے، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اسکی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصوروار ہے کہ نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آجکل ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہوچکا ہے کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں کہ غلط ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ان کا کام ہے انکو کرنے دیں ہمیں انکی ضرورت نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ افسوس ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں، لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

Leave a reply