الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی:قانون پچاس سوسال کاسوچ کربنایاجاتاہے،عدالت

0
32

الیکشن ٹربیونل تبدیلی کےمعاملےپرعدالت نےکہاکہ قانون پچاس سوسال کاسوچ کربنایاجاتاہے۔
الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاالیکشن کمیشن کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ الیکشن ٹریبونل مقرر کرے الیکشن کمیشن کے سواکسی کا احتیار نہیں الیکشن کمیشن حاضر سروس یا ریٹائر جج چیف جسٹس کی مشاورت کے ساتھ الیکشن ٹریبونل کا جج مقرر کر سکتا ہے،آرٹیکل 20 کے مطابق تمام ایگزیکٹو کی تعیناتی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہےایسا کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا جو الیکشن کمیشن کے اختیار ختم کرےکسی نے یہ دلائل نہیں دئیے کہ الیکشن ٹریبونل کے جج ہائی کورٹ تعینات کرے گی۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل بولےاگر الیکشن کمیشن نے ٹریبونل بنا دیا ہے تو الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ ریٹائر جج لگانا ہے یا حاضر سروس جج لگاناہے۔
عدالت نے کہاکیا کسی کیس میں چیف جسٹس خود الیکشن ٹریبونل ہو سکتا ہے وکیل الیکشن کمیشن نے کہاایسا کبھی نہیں دیکھا کہ چیف جسٹس خود ٹریبونل ہو لیکن کوئی رکاوٹ بھی نہیں۔

عدالت نے کہاریٹائرڈ جج کو ٹریبیونل جج مقرر کرنے کی شق موجود تھی تو اسے کیوں تبدیل کیا گیا تھا؟پہلے آپ نے اس شق کو ختم کیا اور پھر دوبارہ سے شامل کر دیا،قانون جب بناتے ہیں تو پچاس سو سال کا سوچ کر بنایا جاتا ہے نا۔

ایڈشنل اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں الیکشن کمیشن کی بدنیتی اس عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں،کامیاب امیدواروں نے الیکشن ٹریبیونل کی کارروائی کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا،تین جون کو درخواستیں دائر کی گئیں،الیکشن کمیشن نے چار جون کو سماعت کیلئے مقرر کر دیں،الیکشن کمیشن نے 10 جون کو درخواستوں پر فیصلہ کر کے ٹریبیونل تبدیل کیاالیکشن کمیشن نے 7 جون کو اسلام آباد کیلئے نیا الیکشن ٹریبیونل جج مقرر کر دیا تھا۔
اسکا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کو معلوم تھا کہ وہ ٹریبیونل تبدیل کرنے جا رہے ہیں،دوران سماعت وکیل فیصل چودھری نے پیر کے روز جواب الجواب دینے کی استدعا کر دی عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

Leave a reply