ججز ٹرانسفر کے عمل میں مشاورت نہیں بلکہ رضا مندی لینے کی بات کی گئی، جسٹس نعیم اختر افغان

0
5

ججز ٹرانسفر اورسینیارٹی کےکیس میں  جسٹس نعیم اخترافغان نےریمارکس دئیےکہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں مشاورت نہیں بلکہ رضا مندی لینے کی بات کی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔دیگرججزمیں جسٹس شکیل احمد،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل تھے۔لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کونسل کے وکیل حامد خان اوربانی پی ٹی آئی عمران خان کےوکیل ادریس اشرف عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس شاہد بلال نےسوال کیاکہ آپ کے مطابق ٹرانسفر شدہ ججز کی سینیارٹی کس نے طے کرنی تھی؟
لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کونسل کے وکیل حامد خان کے دلائل:
وکیل حامد خان نےدلائل دیتےہوئےکہاکہ سینیارٹی کا تعین اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کرنا تھا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس معاملے پر ایگزیکٹو کا ساتھ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہرنےکہاکہ آپ متفق ہوں یا اختلاف کریں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیپارٹمنٹل ریپریزنٹیشن پر فیصلہ دیا تھا۔
وکیل حامد خان نےکہاکہ آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت ٹرانسفر شدہ ججز کو آفس سنبھالنے سے قبل حلف لینا تھا، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ججز کے ٹرانسفرز کی کچھ شرائط ہیں،چیف جسٹس پاکستان کے پاس اس حوالے سے لامحدود اختیارات نہیں،پریکٹس پروسیجر ایکٹ لاگو ہونے کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات تین رکنی ججز کمیٹی کو تحلیل ہوگئے، چیف جسٹس کو ٹرانسفر کے معاملے پر رائے دینے سے قبل دو سینئر ججز سے مشاورت کرنی چاہیے تھی، ہائیکورٹس سے ججز کے ٹرانسفر پر بہت سارے نکات پر غور ہونا چاہئے،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلہ میں غیر معمولی جلد بازی دکھائی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نےریمارکس دئیےکہ انڈیا میں ججز کے ٹرانسفر میں جج کی رضا مندی نہیں لی جاتی، انڈیا میں ججز ٹرانسفر میں چیف جسٹس کی مشاورت ہے،ہمارے ہاں جج پر ٹرانسفر پر رضامندی آئینی تقاضا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نےریمارکس دئیےکہ انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کا یونیفائیڈ کیڈر ہے،پاکستان میں ہائیکورٹس ججز کی سینیارٹی کا یونیفائیڈ کیڈر نہیں ہے۔
جسٹس شکیل احمد بولےکہ انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کی سینیارٹی لسٹ ایک ہی ہے، ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سینیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔
وکیل حامد خان نےدلائل میں کہاکہ الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ نے سینیارٹی کا اصول طے کیا تھا،اس وقت جوڈیشل کمیشن نہیں تھا، ججز کی تقرری چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس ہائیکورٹس ایگزیکٹو کے ساتھ مل کرطےکرتے تھے، ایگزیکٹو اس دوران ججز تعیناتی کے معاملے میں من مانی کرنے لگی،الجہاد ٹرسٹ کیس میں جسٹس اجمل میاں نے طے کیا کہ چیف جسٹس کے ساتھ بامعنی مشاورت ہونی چاہیے، موجودہ کیس میں بامعنی مشاورت نہیں کی گئی ،ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس آف پاکستان نے بامعنی مشاورت ہی نہیں کی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نےکہاکہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں مشاورت نہیں بلکہ رضا مندی لینے کی بات کی گئی۔
وکیل حامدنےکہاکہ اصل مقصد جسٹس سرفراز ڈوگر کو لانا تھا، باقی دو ججز کا ٹرانسفر تو محظ دکھاوے کے لیے کیا گیا، آرٹیکل 200 کا استعمال اختیارات کے غلط استعمال کے لئے کیا گیا۔
ججز ٹرانسفر کیس میں وکیل حامد خان کےدلائل مکمل ہوگئے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کےوکیل ادریس اشرف کےدلائل شروع:
وکیل ادریس اشرف نےدلائل میں کہاکہ ججز ٹرانسفر کی معیاد کا نوٹیفکیشن میں ذکر نہیں ہے، ججز کو ٹرانسفر کر کے پہلے سے موجود ہائیکورٹ میں ججز کے مابین تفریق پیدا نہیں کی جا سکتی، ججز کے مابین الگ الگ برتاؤ نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نےریمارکس دئیےکہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں آرٹیکل 25 کو سامنے رکھا جائے، اگر ججز کا ٹرانسفر دو سال کے لئے ہوتا تو کیا آپ اس پر مطمئن ہوتے، اصل سوال سینیارٹی کا ہے۔
کیس کی مزیدسماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

Leave a reply