پنجاب میں ہتک عزت قانونی منظوری کے بعد ہائیکورٹ میں چیلنج

0
34

لاہور: پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا ہتک عزت بل قائم مقام گورنر ملک احمد خان کےدستخطوں کے بعد قانون بن گیا ہے، لیکن اسےفوری طورپر لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں صحافی جعفر احمد یار اور راجہ ریاض نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کے ذریعے درخواست دائر کی ، درخواست میں وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب بذریعہ پرنسپل سیکرٹری ، پنجاب حکومت کو فریق بنایا گیا ہے ۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ہتک عزت قانون آئین اور قانون کے منافی ہے، ہتک عزت آرڈیننس اور ہتک عزت ایکٹ کی موجودگی میں نیا قانون نہیں بن سکتا، ہتک عزت قانون میں صحافیوں سے مشاورت نہیں کی گئی، ہتک عزت کا قانون جلد بازی میں صحافیوں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا جائے گا۔

لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے بل کو قانون کا درجہ دیئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بھی صحافیوں کے ساتھ دھوکا کیا، پیپلز پارٹی اوپر اوپر سے صحافیوں کے ساتھ تھی لیکن اندر سے حکومت کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور گورنر کو چھٹی پر بھیج کر بل منظور کروا لیا۔

ہتک عزت بل کس کو کہتے ہے؟

پنجاب اسمبلی سے منظور کئے گئے قانون کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا، جس کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا، بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس، ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا۔

ہتک عزت قانون کے تحت کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر کارروائی کرے گا، ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔

ہتک عزت قانون کے تحت کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر کارروائی کرے گا، ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے اور قانون بننے کے بعد 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہوگا۔

آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائی کورٹ کے بینچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے، خواتین اور خواجہ سراؤں کو کیس میں قانونی معاونت کے لئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت دی جائے گی۔

Leave a reply