دہشتگردی کنٹرول کرناپارلیمان کاکام ہےعدالت کانہیں،جسٹس جمال مندوخیل

0
42

فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کےکیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکیس دئیےکہ دہشتگردی کنٹرول کرناپارلیمان کاکام ہےعدالت کانہیں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ نےفوجی عدالتوں میں سویلینز کاٹرائل کالعدم قراردینےکےخلاف کیس کی سماعت کی۔دیگرججزمیں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس محمدعلی مظہربینچ میں شامل تھےجبکہ جسٹس حسن اظہررضوی،جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہدبلال بھی بینچ کاحصہ تھے۔ وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کےدلائل:
وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث نےکہاکہ اگرکوئی سویلین فوجی تنصیب کونقصان پہنچائے،ٹینک چوری کرےتواس پرآرمی ایکٹ کااطلاق ہوگا۔
جسٹس جمال خان مند وخیل نےریمارکس دئیےکہ کسی مجرمانہ عمل پرایف آئی آر کٹتی ہے،سوال ٹرائل کاہے۔ایف آئی آرکیسےکٹتی ہے،تفتیش کون کرتاہے،طریقہ کارکیاہوگا،یہ جانناچاہتےہیں۔
وکیل وزارت دفاع نےکہاکہ قانون بنانےوالوں نےطےکرناہےٹرائل کہاں ہوگا۔آرمی ایکٹ کےتحت آرمڈفورسزخودبھی سویلین کی گرفتاری کرسکتی ہیں۔
جسٹس محمدعلی اظہرنےکہاکہ گرفتاری سےقبل ایف آئی آرکاہوناضروری ہے۔
جسٹس حسن اظہررضوی نےکہاکہ جب کسی کوگرفتارکریں گےتومتعلقہ مجسٹریٹ کےپاس پیش کرناہوتاہے۔
جسٹس جمال خان مند وخیل نےکہاکہ آرمی ایکٹ کی شق ٹوڈی کےتحت ملزم تب بنتاہےجب فردجرم عائدہو۔
وزارت دفاع کےوکیل نےکہاکہ آئین پاکستان نےبذات خودکورٹ مارشل کیلئےیونیک اختیارسماعت دےرکھاہے۔
جسٹس جمال خان مند وخیل نے کہاکہ آپ کےمطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175کےزمرےمیں نہیں آتیں۔فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کےتحت ہیں پھریہ بتادیں۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ کورٹ مارشل کےحوالےسےکئی عدالتی فیصلےموجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مند وخیل نے کہاکہ عدالتوں نےصرف یہ دیکھناہوتاہےکہ ٹرائل آئین کےمطابق ہےیانہیں،دہشتگردی کنٹرول کرناپارلیمان کاکام ہے،عدالت کانہیں،عدالت یہ سوچنےلگ گئی کہ فیصلےسےدہشتگردی کم ہوگی یابڑھےگی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب جاری رکھیں گے۔

Leave a reply