صحافت سے زرد صحافت تک کی کہانی

رپورٹ: مومنہ انصاری
0
127

کیا صحافت ایک مقدس پیشہ ہے یا اب کاروبار بن چکا ہے؟
ییلو جرنلزم کیا ہے؟ یہ اصلاح کب استعمال ہونا شروع ہوئی؟
کیا سوشل میڈیا صحافتی ضابطوں اور معیار پر پورا اتر رہا ہے؟
یہ بحث اب بہت عام ہوچکی ہے کہ صحافت اب صرف مقدس پیشہ نہیں رہا۔ کمرشلزم، فیک نیوز اور ییلو جرنلزم نے صحافت کو اسکے ماخذ’ صحیفہ ‘سے بہت دور کردیا ہے۔
اب دنیا بھر میں صحافت کے نام پر سنسنی خیز خبروں کی کھلے عام تشہیر کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ویوز اور لائیکس کی دوڑمیں ہم سچائی کی ڈور کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ جہاں کسی دور میں صحافیوں کا کہا مستند حقیقت تصور ہوتا تھا۔ لیکن اب تو انکے سچ کو سچ تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ییلو جرنلزم نے صحافت سے لوگوں کا اعتماد متزلزل کردیا ہے۔ اس طرح سنسی خیز اور بلیک میلنگ صحافت کو” ییلو جرنلزم‘‘ یا ’’زرد صحافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں تو اب اسکےلئے لفافہ جرنلزم جیسی افسوسناک اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔
ییلو جرنلزم کی ایک تاریخ موجود ہے۔ زرد صحافت کا آغاز اٹھارہ سو نوے میں نیویارک میں ہوا جب دو اخبارات کے پبلشرز نے کاروبار کی دوڑ میں جرنلزم میں بگاڑ کا آغاز کیا ۔ دونوں اخبارات کی آپس کی اس جنگ کے وجہ، اپنے اخبارات کے قارئین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرنا اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانا تھا۔ اس ٹارگٹ کے حصول کے لئے انہوں نے مبالغہ آمیز سرخیوں کا سہارا لیا اور سنسنی خیزخبریں شائع کیں۔ ان پبلشرز نے حقائق پر سنسنی خیزی کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں قارئین سچ کی پہچان کرنا آہستہ آہستہ بھولنے لگے۔ اس کا نام” ییلو جرنلزم‘‘ ،’’ییلو کِڈ‘‘ نامی کومِک پر رکھا گیا جو دونوں اخبار میں باری باری شائع ہوئی تھیں۔


پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت کے ذریعے عوام ایک رائے قائم کرتے تھے، لیکن اب موجودہ دور میں میڈیا کی خبریں اس حد تک ناقابل یقین ہیں، کہ ان پر رائے قائم کرلینا بہت بڑی بے وقوفی سمجھا جانے لگا ہے۔
ریٹنگ کی دوڑ میں نظریات بیچے جارہے ہیں، کئی صحافی مختلف سیاسی پارٹیوں اور کاروباری شخصیات کے زرخرید غلام بن کر ان کی تشہیر، انکی تعریف و توصیف پر مبنی خبریں اور انٹرویوز فائل کررہے ہیں۔  یہ غیر ضروری بریکنگ نیوز، یہ کلکس یہ لائیکس اسی زرد صحافت کی ایک قسم ہے۔ آخر یقین کیا جائے تو کس پر کیا جائے؟ انہی مبالغہ آمیز سرخیوں پر جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں؟ عوام انہی مبالغہ آمیز خبروں کے مختلف معنی لیتے ہیں، مگر اصل سچ کیا ہے؟ سب بے خبر ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنا ایک معمولی سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ییلو جرنلزم نے ایک الگ شکل اپنا لی ہے ، اس زرد صحافت کی مختلف قسمیں ہیں ۔ اس ملک میں صحافی اپنے آپ کو کسی ایک ادارے یا پارٹی کے ساتھ منسلک کر لیتے ہیں اور اس کے دفاع میں آدھے سچ پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کےلئے لفافہ صحافی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔اب تو یہ ٹرینڈ بن گیا ہے کہ جو زیادہ کماتا ہے، وہ بڑا صحافی ہے۔
قارئین اور ناظرین تو اب حقیقی خبروں سے محروم ہوچکے ہیں۔
خاص طور پر پاکستان میں ایک طرف سیاست، حکومت، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور کمرشلزم، مارکیٹنگ جیسے شعبے حقیقی جرنلزم پر اثر انداز ہورہے ہیں، اور دوسری طرف صحافی لفافہ جرنلزم کی وجہ سے صحافت کو متاثر کررہے ہیں۔
ییلو جرنلزم یا زرد صحافت کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ مثبت صحافت عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت اور اداروں کا احتساب کرکے عوام کے حقوق کی آواز اٹھاتی تھی، وہ آواز بھی اب کنٹرولڈ اور کمرشلائزڈہوچکی ہے۔

Leave a reply