لاہور کی مائی موراں مسجد کی تاریخی حقیقت؟

رپورٹ: عریش آفتاب
0
42

لاہور میں ویسے تو بے شمار تاریخی ورثے موجود ہیں، لیکن منفرد تاریخی مقامات میں سے ایک مائی موراں مسجد ہے، جہاں ہم آج موجود ہیں، اسکی انفرادیت یہ ہے کہ عورت کے نام پر قائم ہے۔یہ عورت مائی موراں کون تھی، اسکا تعلق کس بادشاہ سے تھا۔
لاہور کی تاریخی شاہ عالم مارکیٹ کے قریب پاپڑ منڈی میں موجود یہ چھوٹی سی تاریخی مسجد ایک عورت مائی موراں کے نام سے جانی جاتی ہے۔
یہ تاریخی حقیقت بڑی ہی حیران کن ہے کہ مسلمانوں کے سخت ترین مخالف مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ مسجد تعمیر کرائی تھی اور وہ ایک عورت کے نام سے۔
آخر یہ مائی موراں کون تھی:
اب تک کی تاریخی روایات کے مطابق اپنے دور کی نہ صرف ایک خوبصورت اور ماہر رقاصہ بھی بلکہ فنون لطیفہ میں بھی دسترس رکھتی تھی۔ روایات کے مطابق اسکی شہرت جب مہاراجہ رنجیت سنگھ تک پہنچی تو انہوں نے مائی موراں سے ملاقات کا شوق ظاہر کیا۔ یوں مائی موراں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے درمیان ایک تعلق استوار ہوگیا۔
کہا جاتا ہے کہ مائی موراں کو نہ صرف مہارانی کا لقب دیا گیا بلکہ رعایا انہیں موراں سرکار سے پکارنے لگی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انکے نام کا سکہ بھی جاری کیا۔
تاریخی روایات کے مطابق مائی موراں کو مہارانی کا درجہ دینے کے بعد مہاراجہ نے مسلمانوں کےلئے نرم گوشہ پیدا کیا، اور انکی عبادت گاہوں اور مدارس کے تحفظ کا خیال رکھا جانے لگا۔
ایک روایت کے مطابق مہاراجہ نے مائی موراں سے باقاعدہ شادی کرلی، لیکن سکھ مذہبی قوانین کی خلاف ورزی پر انہیں سری اکالی تخت کے احکامات پر کوڑے بھی مارے گئے۔
اس مسجد کی تاریخی روایات کے مطابق مائی موراں نے رقص کا پیشہ ترک کردیا اور مہاراجہ سے ایک مسجد تعمیر کرنے کی درخواست کی، جو انہوں نے تعمیر کی اور اس مسجد کا نام مائی موراں مسجد مشہور ہوگیا۔
اس مسجد کی چھت سمیت کئی حصے آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں، جو سکھ دور کے طرز تعمیر کی واضح نشانی ہے۔ بعد ازاں مسجد کے کئی حصے از سر نو تعمیر کئے گئے۔ اس مسجد کے مرکزی گنبد اورمینارسمیت کئی حصے آج بھی اپنی اصلی حالت میں ہیں۔
سکھ راج ہونے کے باوجود مائی موراں مسلمان گھرانوں کا بہت خیال رکھتی تھیں، اور اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے یہ گھرانے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے تھے، تاریخی حوالوں کے مطابق یہ شخصیت اٹھارہ سو باسٹھ میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور روایت کے مطابق انہیں میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ انکی قبر کا نشان تو باقی نہیں ہے لیکن مائی موراں مسجد کی وجہ سے انکا نام آج بھی زندہ ہے۔

Leave a reply