مخصوص نشستیں:الیکشن کمیشن کابڑافیصلہ

0
31

الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ کےمخصوص نشستوں سےمتعلق فیصلےپرعملدرآمدکرنےکافیصلہ کرلیا۔
چیف الیکشن کمیشنرکی زیرصدارت الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس بارےاجلاس ہوا۔اجلاس میں الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ کےفیصلے پرعملدرآمدکرنےکافیصلہ کرلیا۔
ترجمان الیکشن کمیشن کاکہناتھاکہ الیکشن کمیشن نےلیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی کہ اگرسپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی پوائنٹ پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراًشناخت کریں تاکہ مزید رہنمائی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے ۔ ایک سیاسی جماعت کی طرف سےچیف الیکشن کمشنراورمعززممبران الیکشن کمیشن کومسلسل اوربےجاتنقید کا نشانہ بنانے پر کمیشن نےاسکی شدید مذمت کی اور اسے مسترد کر دیا ۔ کمیشن سے استعفے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے ۔ کمیشن کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا رہے گا۔
ترجمان الیکشن کمیشن کامزیدکہناتھاکہ الیکشن کمیشن نےتحریک انصاف کےانٹراپارٹی انتخابات کودرست قرارنہیں دیا۔الیکشن کمیشن نےکسی فیصلےکی غلط تشریح نہیں کی۔جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھاگیا۔چونکہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن قابل قبول نہیں تھے ۔جس کی بنیاد پرالیکشنزایکٹ کی دفعہ 215کےتحت بلےکانشان واپس لیاگیاتھا۔ الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے ۔
جن ممبران قومی اسمبلی کوتحریک انصاف کا ایم این اےقراردیاگیاہےانہوں نےاپنےکاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہرکی تھی ۔جبکہ کسی بھی پارٹی کاامیدوارہونےکےلئےپارٹی ٹکٹ اوراعلامیہ ریٹرننگ آفیسرکےپاس جمع کر واناضروری ہےجوکہ ان امیدواروں نےجمع نہیں کروایا تھا۔ ریٹرننگ افسروں کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ انکو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہرکرتے ۔
جن 41 امیدواروں کو آزادظاہرکیاگیا ہے انہوں نے نہ تو اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ پارٹی کی وابستگی ظاہر کی۔اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا ۔ ریٹرننگ افسروں نے ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی ۔ الیکشن جیتنے کے بعد قانون کے تحت تین دن کے اندر ان ممبران نے رضاکارانہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ۔ سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئی ۔ سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کردی گئی ۔ پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ کے سامنے پارٹی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں پارٹی تھی۔

 

Leave a reply