ملٹری کورٹس میں سویلینزکاٹرائل:سپریم کورٹ نےفوجی عدالتوں کوفیصلےسنانےکی اجازت دیدی

0
3

ملٹری کورٹس میں سویلینزکےٹرائل پرسپریم کورٹ نےفوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دےدی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نےفوجی عدالتوں میں سویلیئنزکےکیس کی سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئےجبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کردی۔ جسٹس امین الدین کہا کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےوکیل خواجہ حارث سےکہاکہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس پہلو کوبھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973کے آئین سے پہلے بنا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ سپریم کورٹ کےفیصلے میں خرابیاں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کل بھی کہا تھا کہ 9 مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کر دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرواؤں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہو گا؟ 9 مئی سے قبل بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہو گی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہونے والے فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو اُن ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ آرمی جوائن کرنے والے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔ آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔ آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کے لیے گیا ہے۔
وکیلِ خواجہ حارث نےموقف اختیارکیاکہ فوج میں کوئی بھی کام جرم کی نیت سے نہیں کیا جاتا۔ بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک ہی محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کابھی جائزہ لے سکتی ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ کےآئینی بینچ نےملٹری کورٹس کوفیصلہ سنانےکی اجازت دےدی۔
عدالت نےکہاکہ فوجی عدالتوں کےفیصلےسپریم کورٹ میں زیرالتوامقدمہ کےفیصلےسےمشروط ہوں،جن ملزمان کوسزاؤں میں رعایت مل سکتی ہےانہیں رہاکیاجائے،جن ملزمان کورہانہیں کیاجاسکتاانہیں سزاسناکرجیلوں میں منتقل کیاجائے۔
سپریم کورٹ نےفوجی عدالتوں کو85ملزمان کےفیصلےسنانےکی اجازت دی۔

سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرماکی چھٹیوں کےبعدتک ملتوی کردی۔

Leave a reply