میں حکومتی اداروں کوآرڈرجاری کرسکتاہوں،چیف جسٹس عامرفاروق

0
30

چیف جسٹس عامرفاروق نےکہاہےکہ میں حکومتی اداروں کو آرڈر جاری کر سکتا ہوں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔
اسلام آباد کے تاجروں کی جانب سے شہراقتدارمیں احتجاج رکوانے کے لیے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے کی۔درخواست گزارکےوکیل راجاانعام امین عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
عدالت نےدرخواست گزارکےوکیل سےاستفسارکیاکہ کیا عجلت ہے، جس پر وکیل راجا انعام امین نے بتایا کہ 2 دن سے پورا اسلام آباد بند ہے، کاروبار بند ہے۔ بچوں کے امتحانات ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد کی روزانہ آمدورفت ہے۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نےریمارکس دئیےکہ صورتحال کوسمجھ سکتاہوں میں خود کنٹینرز کے درمیان سے گزر کر آیا ہوں۔
وکیل راجاانعام امین نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ اُس کانفرنس میں تو ابھی ہفتہ پڑا ہوا ہے۔ ایک چیز ہر ایک کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شہری کے حقوق ہیں۔ ایک شہری کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا حکومت کا کام ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلا یا اور کہا کہ سیکرٹری داخلہ سے کہیں عدالت میں پیش ہو جائیں۔ پولیس کے بھی کسی ذمے دار افسر کو پیش ہونے کا کہہ دیں۔ وزیر داخلہ کو بلانا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اگر ہوں تو انہیں بھی بلا لیں۔ عدالت پی ٹی آئی کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی۔ میں حکومتی اداروں کو آرڈر جاری کر سکتا ہوں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ موبائل سگنل 2 دن سے بند ہیں کسی کی ایمرجنسی ہو جائے تو کیا ہو گا؟۔
سیکرٹری داخلہ خرم علی آغاعدالت میں پیش ہوگئے۔
بعد ازاں کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے پورا شہر کیوں بند کیا ہوا ہے۔
سیکرٹری داخلہ خرم علی آغانےکہاکہ ملائیشیاکےوزیراعظم گزشتہ روزاسلام آبادمیں موجودتھے،اسلام آبادمیں احتجاج کےلئے قانون موجودہے،تین چاردن میں اہم سعودی وفدبھی پاکستان پہنچ رہاہے،شنگھائی تعاون تنظیم کااجلاس ہوناپاکستان کےلئے باعث فخرہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ حکومت ہیں اور آپ کا کام برابری کے حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ سرکار کا کام ہے کہ شہریوں کے برابر کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو فوری اقدامات کر کے حالات معمول پر لانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں آج آرڈر جاری کروں گا اور کیس آئندہ ہفتے کے لیے دوبارہ رکھ رہا ہوں۔ مجھے امید ہے پیر کو ہم واپس آئیں تو حالات معمول کے مطابق ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ سڑک کے درمیان اکٹھے ہو جائیں اور میرا راستہ بند کر دیں۔ ان کو مناسب جگہ دیں جہاں احتجاج کریں یا جو مرضی کرنا ہو کر لیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا کام ہے اور آپ نے ہی کرنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ احتجاج بنیادی حق ہے، مظاہرین جس حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں کریں۔ اس وقت شہر ایسا لگ رہا ہے حالت جنگ میں ہے۔دفعہ 144 نافذ ہے تو یقینی بنائیں کہ اس پر مکمل عملدرآمد ہو۔  آپ مناسب اقدامات کریں اور اسلام آباد کو کلیئر کریں۔ وفود پاکستان آ رہے ہیں کوئی نامناسب واقعہ ہوتا ہے تو وزارتِ داخلہ ذمے دار ہو گی۔ آپ نے فوج بھی طلب کی ہوئی ہے؟ آرمڈ فورسز سول حکام کی معاونت کرتی ہیں؟۔

سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ وزیرِداخلہ نے بڑی نرمی سے درخواست کی لیکن وزیراعلیٰ کے پی بضد ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی بھاری حکومتی مشینری کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بہت سی سرکاری مشینری کو نقصان پہنچایا گیا ہے جلا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو احتجاج کر رہے ہیں وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں آپ نے ان کی جانوں کا بھی تحفظ کرنا ہے۔  آپکے پاس بہت مشکل ٹاسک ہے لیکن آپ بہت اہم پوزیشن پر ہیں۔احتجاج کرنےوالوں کے اقدامات سے کسی اور کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ غیرقانونی ہے۔ وزیرداخلہ کو بتا دیں کہ آپ نے یہ بیلنس رکھ کر چلنا ہے۔ شہر میں کرفیو کی صورتحال ہے۔ آپ نے حالات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرنے ہیں۔۔ جو غیرملکی وفود آ رہے ہیں ہم اُنکو کیا دکھانے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا کیا امیج جائے گا اگر ہم کنٹینرز سے بھرا اسلام آباد انہیں دکھائیں گے۔آپ نے یقینی بنانا ہے کہ اسلام آباد ایک پرامن شہر ہے۔
عدالت نےکیس کی مزیدکارروائی ملتوی کردی۔

Leave a reply