وزیر قانون و صحت گلگت بلتستان سید سہیل عباس مستعفی ہو گئے

0
35

پاکستان ٹوڈے: آج سے ساڑھے تین سال قبل گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات میں بطور ممبر اسمبلی منتخب ، تین سال کے عرصے میں بطور وزیر مختلف محکمہ جات عوام کی بھرپور خدمت کرنے کی کوشش کی، میں اپنےحلقے کے عوام کا۔

تفصیلات کے مطابق بانی چئیرمین عمران خان ،پارٹی قیادت اور سابق وزیر اعلئ و صدر پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان خالد خورشید کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی بدولت اسمبلی ممبر اور کابینہ کا حصہ رہا۔

۵ جولائی کو جب ہم سب پارٹی کے امیدوار راجہ اعظم کو ووٹ دینے اسمبلی گئے تو سپریم اپیلیٹ کورٹ سے سٹے آگیا اور سی ایم کے الیکشن کو ایک ہفتے تک موخر کردیا گیا اور اسی دوران پارٹی کے امیدوار نے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ہم خیال گروپ کا اعلان کیا، آپ سب کے بخوبی علم میں ہے اُن حالات میں پارٹی قیادت سے رابطہ تقریباً ناممکن تھا۔

انہی دنوں میں دیامر کے عمائدئن جن میں موجودہ ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں، میرے گھر تشریف لائے اور درخواست کی کہ اس وقت گلگت بلتستان میں ایک فرقہ وارانہ فضا بنی ہے جسے ختم کرنے اور امن برقرار رکھنے کے لئے آپ کا حکومت کا حصہ بننا ناگزیر ہے، چونکہ پارٹی کے امیدوار نے پارٹی سے لاتعلقی کی تھی اور کوئی امیدوار نامزد نہیں ہوا تھا۔

گلگت بلتستان کے امن کی خاطراِن عمائدین کےاسرار پر اس حکومت کا حصہ بنا، گزشتہ دس ماہ سے بھر پور کوشش کی کہ آزادانہ کام کرسکوں لیکن چند انتہائی اہم اور حساس معاملات پر بے جا مداخلت اور ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ میرے لئے ناقابل عمل تھے، میرے لئے عہدوں کی کوئی اہمیت نہیں، میرے لئے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق مقدم ہیں، مجھے چند اہم عہدوں پر فائز دوستوں نے بھی متعدد بار مشورہ بھی دیا کہ کابینہ میں اور بھی اراکین ہیں جو کسی بھی عوامی ایشو پر بات تک نہیں کرتے۔

تو آپ بھی اس طرح کے معاملات میں خاموشی سے سائن کردیں ورنہ آپکے لئے مشکلات پیش آئینگی، لیکن الحمد اللہ گلگت بلتستان کے کسی بھی قومی ایشو پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا اور جس جس فارم پر آواز بلند کرسکتا تھا کیا اور کرتا رہونگا۔ اب موجودہ حالات میں موجودہ حکومت میں جس انداز میں مدا خلت اور ڈکٹیٹ کیا جارہا اور وزیر اعلئ اور چند وزراء کی فرمائش پر جو اقرباء پروری میرٹ کی پامالی اور تعصبات پر مبنی فیصلے کیئے جارہے ہیں، فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں کابینہ اراکین کو مہنے بعد پتا چلتا ہے۔

کہ یہ فیصلہ بھی انہوں نے خود کیا ہے۔ سرکولیشن پر اہم نوعیت کے فیصلے کرائے جارہے ہیں ، بارہا احتجاج کیا کہ سرکولیشن کی روش کو ختم کیا جائے لیکن کسی کے کان میں جُو تک نہ رینگی۔ ایسے حالات میں میرے لئے بطور وزیر اور حکومت کا حصہ رہنا ناممکن ہےکہ کیونکہ ہم کبھی بھی گلگت بلتستان کے قومی معاملات پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔

عبوری آئینی صوبے کی کمیٹی سے لیکر گلگت بلتستان کابینہ کے ہر اجلاس میں جب بھی قومی ایشوز کی بات آئی الحمداللہ آواز بلند کی، لہٰذا موجودہ صورتحال میں، میں بطور وزیر استعفئ دیتا ہوں اور آج سے میں اپوزیشن بنیچچز کا حصہ ہونگا۔

Leave a reply