پشاور:ایف سی ہیڈکوارٹر پرحملہ،3 جوان شہید،جوابی کارروائی میں 3 دہشتگرد ہلاک

پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈ کوارٹرپرملک دشمن عناصر کے حملے میں ایف سی کے 3جوان شہید ہوگئےجوابی کارروائی میں خودکش حملہ آورسمیت 3دہشت گردجہنم واصل کردئیےگئے۔
صوبائی دارالحکومت پشاور کےعلاقہ صدر مین روڈ پر واقع ایف سی ہیڈکوارٹر کے گیٹ پر خود کش حملہ آورنے خود کو زور دار دھماکے سے اڑا دیاجس کےنتیجےمیں سیکیورٹی پرمامور3ایف سی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا ۔ بعد میں چند دہشت گرد ایف سی ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوگئے،علاقےمیں فائرنگ کی آوازیں دور دورتک سنی گئیں۔
سی سی پی او ڈاکٹر میاں سعید احمدنےکہاہےکہ حملہ صبح 8 بج کر 10 منٹ پر ہوا، حملے کے بعد سنہری مسجد روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا اور ٹریفک کو صدر روڈ کی جانب موڑ دیا گیا۔
اُنہوں نےمزیدکہاہےکہ خودکش حملےمیں 3ایف سی جوان شہیدہوگئے،جبکہ پولیس اور ایف سی کے کمانڈوز نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ اور بروقت ریسپانس کرتے ہوئے 3 حملہ آور وں کو ہلاک کر دیا۔
ڈپٹی کمانڈنٹ فیڈرل کانسٹیبلری جاوید اقبال نے بتایا کہ تینوں خودکش حملہ آور مارے گئے ہیں، فیڈرل کانسٹیبلری کے جوانوں نے بہادری سے دہشتگردوں کا مقابلہ کیا، خودکش حملے میں فیڈرل کانسٹیبلری کے 3 اہلکار شہید ہوئے۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق حملے میں 9 افراد زخمی ہوئے جنہیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کردیا گیا ، حملے میں 3 ایف سی اہلکار اور 6 شہری ہیں، تمام زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے اور ان کی حالت تسلی بخش ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کےترجمان عاصم کاکہناہےکہ زخمیوں کی حالت تسلی بخش ہے علاج مہیا کیا جا رہا ہے ۔ زخمیوں میں تین ایف سی اہلکار اور باقی عام شہری شامل ہیں۔ صدر دھماکے کے پانچ زخمیوں کو ایل آر ایچ منتقل کیا گیا۔
وزیراعظم شہبازشریف کاپشاورمیں فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈکوارٹر پر دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہناتھاکہ سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کے نتیجےمیں بڑے نقصان سے بچ گئے۔
اُن کامزیدکہناتھاکہ حکومت پاکستان ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔ملک کی سالمیت پرحملہ کرنے والے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کوخاک میں ملا دیں گے۔واقعے کے ذمہ داران کی جلد ازجلد شناخت کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
وزیراعظم شہبازشریف نےپشاورحملےکےزخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد ازجلد صحتیابی کے لیے دعا کی۔















