پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کیس،عدالت نےنظرثانی درخواست مستردکردی

0
6

سپریم کورٹ نےتحریک انصاف کی انٹراپارٹی کیس کی نظرثانی درخواست کومتفقہ طورپرمستردکردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےتحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات نظرثانی کیس کی سماعت کی۔بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل حامدخان عدالت میں پیش میں ہوئے۔
پی ٹی آئی وکیل حامدخان نےاستدعاکی کہ ہم نے لارجر بینچ تشکیل دینے کیلئے درخواست دائر کی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریماکس دئیےکہ یہ نظرثانی کیس ہے اس میں صرف مرکزی فیصلے کے نقائص بتائے جاتے ہیں۔
وکیل حامدخان نےکہاکہ یہ معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے اور نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔ موجودہ تین رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا۔سنی اتحاد کونسل کیس میں13 رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریماکس دئیےکہ مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، ہم کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے جس پر نظرثانی زیر التوا ہے۔
ٹی وی پر بات کرنے کے بجائے منہ پر بات کرنے والے کو میں پسند کرتا ہوں، چیف جسٹس کا حامد خان سے مکالمہ جواب میں وکیل حامدخان کاکہناتھاکہ میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ میں آپ کو دلائل کیلئے مجبور نہیں کر سکتا، نظر ثانی درخواست میں عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے ہوتے ہیں۔

حامد خان کا کہنا تھا عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھ لے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں،انٹرا پارٹی انتخابات اور معاملہ ہے، وہ الگ معاملہ ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا، سنی اتحاد کونسل کیس میں 13 رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے جس پر نظرثانی زیر التوا ہے، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ نے اپنی بات تو کرنی ہی کرنی ہے، جو کہنا ہے منہ پر کہنا چاہیے، ٹیلی ویژن پر بیٹھ نہیں کہنا چاہیے، ہمارے منہ پر جو مرضی کہیں، پیٹھ پیچھے نہیں، آپ نے دلائل کیوں نہیں دینے، جواب دیں؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے دلائل نہیں دینے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جب نیازی صاحب وزیراعظم تھے تو انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے نوٹس جاری ہوا، تب بھی نہیں کرایا، ایسا تو نہیں کہ آپ لوگ انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے دلچسپی نہیں رکھتے اور عوام سے ہمدردی لینا چاہتے ہیں، انتخابات کرانے کیلئے تو دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جس پر حامد خان بولے میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا، قاضی فائز عیسیٰ نے کہ منہ پر بات کرنے والےکو میں پسند کرتا ہوں۔

حامد خان نے کہا میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی بولیں ایک جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں کیوں تاخیر کررہی ہے؟ انٹرا پارٹی انتخابات کروانا تو ایک ہفتےکا کام ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں گوہر علی خان، نیاز اللہ نیازی، علی ظفر بھی تھے، ان میں سےکوئی دلائل دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے، حامد خان بولے میں موجودہ بینچ کے سامنے دلائل دینا ہی نہیں چاہتا، کیس کیلئے نیا بینچ بنے گا تو دلائل دوں گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چلیں پھر گپ شپ کر لیتے ہیں، آپ کو سننے میں مزہ آتا ہے۔

حامدخان نے کہا متعصب ہونے کی درخواست تو دی جا سکتی ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا متعصب کیوں؟ جو آئین پر بات کرے متعصب ہو گا؟ جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ باہر جا کر تقریر کریں۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 13 جنوری کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظرثانی درخواست خارج کر دی اور کہا کہ فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاسکی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ فیصلے میں کسی غیر قانونی نکتے کی نشاندہی نہیں کی گئی، تحریک انصاف کے وکلا نے کیس کے میرٹس پر دلائل ہی نہیں دیے۔

حامد خان کا کہنا تھا کہاجا رہا ہےکہ ہم نے انٹراپارٹی انتخابات کرایا ہی نہیں، ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کرایا ہے، جناب نے اسے کالعدم قرار دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کی جماعت کا انتخابات کا آئین بہت شفاف ہے، یا تو آپ ایسے آئین کو بدل دیں یا اس کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے روسٹرم پر آکر 26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بینچ اب یہ کیس سن ہی نہیں سکتا، نہ ہم اس کے سامنے دلائل دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں نہیں معلوم کسی ترمیم کا، ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے، ہمیں نہ بتائیں ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ اور بھی بہت سے وکلا تھے پی ٹی آئی کے وہ کیس چلا لیں۔
پی ٹی آئی کی نظرثانی درخواست تینوں ججز نے خارج کردی۔سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات نظرثانی درخواست مسترد کر دی ۔

Leave a reply