عدالتی کارروائی میں پروسس درست اپنایا گیا یا نہیں: جسٹس منصور

0
162

پاکستان ٹوڈے : سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کمرۂ عدالت میں موجود ہیں۔

اس موقع پر عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیئے، ذوالفقارعلی بھٹو ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے سے متعلق مخدوم علی خان عدالت کی معاونت کر رہے ہیں۔

سابق جج اسد اللّٰہ چمکنی بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے ہیں، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سابق جج اسد اللّٰہ چمکنی سے کہا کہ آپ فوجداری قانون کے ماہر ہیں، آپ کو دوسرے مرحلے میں سنیں گے۔

ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے:چیف جسٹس

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے، مخدوم علی خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تمیز الدین خان کیس میں سپریم کورٹ نے ایک ویو لیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں پروسس درست اپنایا گیا یا نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں؟ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے؟
جسٹس منصور علی نے استفسار کیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ اب ہم کیسے دروازہ کھول سکتے ہیں؟ کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت اب یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ پروسیس غلط تھا، اب ہم اس معاملے میں شواہد کیسے ریکارڈ کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم اب انکوائری کر سکتے ہیں؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ یہ کیس حتمی ہو چکا ہے، کیا ہمیں یہ سوال کسی اپیل میں طے نہیں کرنا چاہیے؟

ذوالفقار بھٹو کیخلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا’

چیف جسٹس پاکستان نے مزید دریافت کیا کہ کیا ہم اس پہلو کو نظرانداز کر سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لاء تھا اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا اس وقت ججز نے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا تھا؟ جس پر عدالتی معاون نے جواب دیا کہ جی بالکل۔

قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے آئینی پہلو پر زیادہ سننا چاہتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس دراب پٹیل کا ایک انٹرویو پی ٹی وی میں موجود ہے، وہ انٹرویو یوٹیوب پر نہیں ہے مگر پی ٹی وی کے پاس ہے۔

مخدوم علی خان نے سہیل وڑائچ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں مختلف ججز کے انٹرویوز اکٹھے کئے گئے ہیں۔

وکیل کے کنڈکٹ کی سزا مؤکل کو نہیں ملنی چاہیے: چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا یہ واحد کیس ہے جس میں ڈائریکٹ ہائیکورٹ نے قتل کیس سنا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ رپورٹ ہوئے مقدمات میں ایسا کوئی اور کیس نہیں ہے، ویسے شاید ہو۔

مخدوم علی خان نے مزید بتایا کہ دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دراب پٹیل مگر بدقسمتی سے نظر ثانی متفقہ طور پر خارج کرنے والے بنچ کا حصہ تھے۔

چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے مکالمہ کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہوگا؟ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بتایا کہ مجھے مزید 30 سے 40 منٹ لگیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

واضح رہے کہ 12 برس قبل 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔

 

Leave a reply