جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں،جسٹس حسن اظہر رضوی

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپرٹیکس کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نےسپرٹیکس کےکیس کی سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل عاصمہ حامد اورایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
ایف بی آرکی وکیل عاصمہ حامد نےکہاکہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے،جسٹس امین الدین خان بولےکےسپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نےکہاکہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں،ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےکہاکہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس کی چھوٹ ہوتی ہے۔
ایف بی آرکی وکیل عاصمہ حامد نےکہاکہ کچھ ادارے غلط تشریح کر کے کہہ رہے کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں،جس بھی سال اضافی ٹیکس کی ضرورت ہوگی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا،ایک مخصوص حد کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نےکہاکہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آرہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر بولےکہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے،ایڈوانس ٹیکس کیلئے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔