بالی ووڈ فلم ’’دھرویندھر‘‘ نے لیاری اور رحمان ڈکیت کی کہانی دوبارہ زندہ کر دی

بلاگ:عتیق مجید
کراچی کا علاقہ لیاری آج کل دنیابھر اور خاص طور پر پاکستا ن اور بھارت کے شہریوں کی گفتگو کا حصہ اور زبان زد عام ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ لیاری میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے کے گینگ ہیں اور دوسرا بالی ووڈ کی بنائی ہوئی فلم دھرویندر ہے جس میں سنجےدت،رنویر کپور،اکشے کھنہ،ارجن رام پال سمیت کئی بھارتی فلمی ستارےایک ساتھ نظر آرہےہیں۔سابق ایس ایس پی چودھری اسلم اور رحمان ڈکیٹ کی زندگی کو کہانی میں فلم بند کیا گیا ہے۔
رحمان ڈکیت ایک ایسا نام جو کئی برسوں تک کراچی سمیت پاکستان کے مختلف حصوں میں خوف، طاقت اور جرائم کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رحمان ڈکیت کون تھے، کہاں سے آئے تھے، جرم کی دنیا میں کیسے داخل ہوئے اور ایک سٹریٹ کرمینل سے انڈر ور لڈ ڈان کیسے بنے؟یہ سب سوال ہیں جو ایک بار پھر زندہ ہو گئے ہیں۔
رحمان کا اصل نام عبدالرحمن تھا۔یہ شخص 1976 میں لیاری کے کلاکوٹ میں داد محمد عرف دادل کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق ایران کے بلوچستان سے تھا۔ دادل اور ان کے بھائی لیاری میں آباد تھے اور بعض فلاحی کام بھی کرتے رہے مگر سرکاری ریکارڈ کے مطابق وہ منشیات کے دھندے میں ملوث تھے۔
رحمان ڈکیٹ نے شروع شروع میں سکول کا رخ کیا مگرخاندانی ماحول، علاقائی جرائم پیشہ سر گرمیوں نے انہیں چھوٹی عمر میں ہی سکول چھوڑ کر آوارہ گردی کی طرف مائل کیا اور یوں13 برس کی عمر میں انہوں نے جرائم کا آغاز کیا۔ شروعات میں رحمان چھوٹے لیول کے غیرقانونی کاموں میں شامل تھے اسلحہ برداری، لوکل لیول کے تنازعات میں مداخلت اور گینگ کے کم سطحی کردار مگر آہستہ آہستہ وہ ایسے گروپ کا حصہ بنے جو شہر میں اورگنائزٹ طریقے سے جرائم کرتا تھا 90 کے دہائی کے آخر اور2000 کے دہائی کے آغاز میں کراچی کے حالات تبدیل ہو رہے تھے رحمان نے اسی دور میں شہرت حاصل کی پہلے وہ چند گلیوں تک محدود تھے پھر ان کے گروہ نےکراچی کے اور علاقوں کے اندر ایکٹیو نیٹ ورک قائم کر لیا۔ ڈکیتی، بھتا خوری، رحمان کے انفلوینس میں اضافہ ہوا تو ان کے روابط بھی وسیع ہونے لگے کئی سیاسی جماعتوں کے لوکل ورکرز ایسے گروہ کی مدد لیتے تھے جو علاقے میں کنٹرول رکھتے تھے اسی بیک گراؤنڈ میں رحمان کا کردار سیاسی طور پر اہم ہونے لگا 2000 کے آس پاس رحمان ڈکیٹ کا دبدبہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ صوبائی اور نیشنل اسمبلی کے ممبر ز اور ٹاؤن ناظم بھی وہی طے کرتے تھے اور 2008 میں رحمان نے کراچی میں پیپلز امن کمیٹی قائم کی اور اردو بولنے والے علاقوں میں بلوچ اقلیت کے ساتھ ایم کیو ایم کے سٹائل میں یونٹس، سیکٹرز،دفاتر اور علاقائی ذمہ دار مقرر کیے اور اب وہ کمیٹی کے سربراہ سردار عبدالرحمن بلوچ کہلائے جانے لگے اپنے غیر قانونی کاموں اور بزنسز سے انہوں نے بہت دولت بھی کمائی۔
مقامی لوگ کہتےہیں کہ رحمان ڈکیٹ نے 3خواتین سے شادی کی اور ان کے ایک درجن کے قریب بچے بھی ہیں ۔ 2006 تک وہ کراچی، بلوچستان اور ایران میں کئی دکانیں، گھر، پلاٹ اور ا150ایکڑ زمین کے مالک بن چکے تھے جبکہ کچھ سورسز کے مطابق بعد میں ان کی جائیداد اور بھی زیادہ ہو گئی لیکن بڑھتی شہرت کے ساتھ ان پر ریاستی اداروں کی نظر بھی مزید سخت ہونے لگی رحمان ڈکیٹ کئی بار گرفتار ہوئے کچھ گرفتاریوں میں ان پر سنگین نوعیت کی الزامات لگے مگریا تو ثبوت مکمل نہیں ہوئے یا وہ جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ وہی شخص ہیں جس پر اپنی سگی ماں کے قتل سمیت ایک سو کے قریب جرائم میں ملوث ہونےکے الزامات تھے۔جس میں قتل،اقدام قتل،بھتہ خوری،ڈکیتی،لوٹ مار سمیت کئی وارداتیں شامل تھیں۔
جولائی 2009 میں پولیس کی ایک کارروائی کے دوران رحمان ڈکیٹ مارے گئے پولیس کے مطابق یہ ایک مقابلہ تھا جس میں انہوں نے گرفتاری میں مزاحمت کی ۔
کچھ مقامی حلقے اس بیانیے پر سوال اٹھاتے رہے مگر سرکاری ریکارڈ میں اسے انکاؤنٹر کے طور پر درج کیا گیا اس کارروائی میں انکاؤنٹر سپیشلسٹ کہلائے جانے والے سندھ پولیس کے آفیسر چودھری اسلم بھی شامل تھے۔اسی دور میں چودھری اسلم نے ہی رحمان ڈکیٹ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تصدیق بھی کی تھی۔
رحمان ڈکیٹ کچھ لوگوں کے لئے مسیحا اور قانون کی نظر میں بڑے مجرم تھے۔مقامی لوگ کہتےہیں کہ لیاری میں کئی گھروں کی کفالت بھی رحمان ڈکیٹ کرتےتھے اور وہاں سے منشیات کے خاتمے میں بھی اہم کردارتھے۔لیکن سو کے قریب وارداتوں میں ملوث ہونے کے بعد انکی زندگی کا خاتمہ ایک پولیس مقابلے میں ہوا۔















