امریکی ایوان نمائندگان میں بڑی سماعت امریکی ایوان میں قیدی 804 کی گونج ڈونلڈ لو کی بات پر”جھوٹ جھوٹ ” کے نعرے سائفرالزام مسترد مگر الیکشن دھاندلی زدہ قرار

0
111

امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کے اہم ترین اجلاس میں "عمران خان کوآزاد کرو” اور” ڈونلڈ لو جھوٹا شخص ہے” کے نعرے بلند ہوگئے۔ امریکی ایوان میں قیدی نمبر 804 کی گونج بی سنائی دینے لگی، لیکن اجلاس کا نتیجہ بڑا ہی حیران کن تھا

امریکی نمائندگان کی خارجہ کمیٹی نے ایک خصوصی اجلاس میں پاکستان میں سائفر سازش کے الزامات کو باضابطہ طور پر مسترد کرتے ہوئے اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ڈونلڈ لو کا موقف تسلیم کرلیا ہے، جبکہ ایک کانگریس رکن کے مطالبہ پر ایک قرار داد کے ذریعے پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے بارے آڈٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی میں اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کانگریس نمائندگان کے سوالوں کے تفصیلی جواب دیئے۔

اجلاس کو اس وقت چند منٹ کےلئے روکنا پڑآ جب مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے ایک خاتون سمیت تین افراد نے "عمران کو آزاد کرو” اور ” ہمیں عمران کی ضرورت ہے” کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ کمیٹی کے رکن میکور مک کے مطالبہ پر نعرے لگانے افراد کو ایوان سے باہر نکال کر اجلاس دوبارہ شروع کیا گیا۔

کمیٹی کو دیے گئے بیان میں ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ سائفر کے ذریعے امریکی سازش کا بانی پی ٹی آئی عمران خان کا الزام سراسر جھوٹ ہے، خود پاکستانی سفیر اسد مجید بھی سائفر کا الزام جھوٹ قرار دے چکے ہیں۔ ڈونلڈ لو نے کمیٹی کو بتایا کہ بے بنیاد الزامات کی وجہ سے مجھے اور میرے خاندان کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

میکورمک نے ایک قرارداد پیش کی جس کے متن کے مطابق امریکہ پاکستان میں جمہوری عمل اور انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں الیکشن کے دوران الیکٹورل فراڈ اور تشدد کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ انھوں نے انتخابات کے آزاد اور شفاف آڈٹ کا مطالبہ کیا۔

ایک کانگریس رکن نے ڈونلڈ لو سے پوچھا کہ کیا امریکی محکمۂ خارجہ کو اعتماد ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام ایسا ہے جو اِن بے ضابطگیوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔ ڈونلڈ لو نے جواب میں کہا کہ گذشتہ الیکشن میں انتخابی بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخاب کرائے اور اس الیکشن میں بھی ایسا ہوا ہے۔ ’ہم الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنا آئینی کردار ادا کرے۔‘

کمیٹی کے رکن ڈین فلپس نے ڈونلڈ لو سے ایک چھبتا ہوا سوال پوچھا کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے پاکستان میں انتخابات کے بعد یہ مؤقف اختیار کیا کہ امریکہ اگلی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے، اس سے قطع نظر کہ کون سی جماعت آتی ہے، تو کیا ماضی میں بھی ایسے بیان کی روایت رہی ہے؟

ڈونلڈ لو نے ” جی سر” کہ کر مختصر جواب دیا۔ ڈین فلپس نے مزید پوچھا کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ امریکی حکومت نے کبھی اس پر رائے نہیں دی کہ کون پاکستان کی قیادت کرے گا۔ اس پر بھی لو نے یس کہ کرجواب دیا۔

ڈین فلپس نے امریکی محکمۂ خارجہ کے اس بیان پر وضاحت مانگی کہ پاکستان میں انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
ڈونلڈ لو نے بڑآ ڈپلومیٹک جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن امیدواران اور سیاسی جماعتوں کی شکایات کو سنتا ہے اور اس پر فیصلے دیتا ہے۔ ہم اس طریقۂ کار پر عملدرآمد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ہم اس کی نگرانی کریں گے۔‘

تاہم انہوں نے کانگریس رکن کو مطمعن کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستانی حکومت اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتا ہے کہ انتخابی بے ضابطگیوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے چیئرمین جو ولسن نے بھی ڈونلڈ لو سے پوچھا کہ ایسے الزامات ہیں کہ امریکی حکومت نے سازش کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرائی۔ انھوں نے اِن قیاس آرائیوں پر ڈونلڈ لو سے جواب طلب کیا۔

ڈونلڈ لو نے جواب دیا کہ ’یہ الزامات، یہ سازشی نظریہ ایک جھوٹ ہے۔۔۔ میں نے سائفر کے معاملے پر پریس رپورٹنگ کا جائزہ لیا ہے۔ ایوان میں ایک بار پھر بدمزگی پیدا ہوگئی جب کمیٹی کے بعض اراکن نے "جھوٹ” کا نعرہ لگا کر ڈونلڈ لو کے موقف پر طنز کیا۔‘
تاہم انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لیک شدہ مبینہ سفارتی کیبل درست نہیں ہے اور ’کسی بھی موقع پر اس میں مجھ پر یا امریکی حکومت پر الزام نہیں لگایا گیا کہ ہم نے عمران خان کے خلاف اقدامات کیے۔

اسی دوران وزیٹرز گیلری سے ایک بار پھر ’قیدی نمبر 804 کو رہا کرو‘ کے نعرے بلند ہوئے۔
اجلاس میں کانگریس نمائندگان نے ڈونلڈ لو سے پاکستان میں خواتین کی آزادی، ایران پائپ لائن، پاکستان کے طالبان حکومت سے تعلقات اور پاکستان کے معاشی بحران کے حوالے سے سخت سوالات کئے تاہم ڈونلڈ لو نے بیشتر سوالات کے جواب میں پاکستان کا دفاع کیا۔ اور پاک امریکہ تعلقات کو امریکہ کے مفاد میں بہتر قرار دیا۔

Leave a reply