آپ چاہتےہیں سارےچین آف ایونٹس کونظراندازکرکےریلیف دیں،جسٹس امین

0
12

مخصوص نشستوں کے فیصلہ کیخلاف نظر ثانی اپیلوں پرریمارکس دیتے ہوئے جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ چاہتےہیں سارےچین آف ایونٹس کو نظر انداز کرکےآپ کوریلیف دیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نےمخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی۔سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی اور ڈی جی لاء الیکشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل:
وکیل فیصل صدیقی نےدلائل دیتےہوئےکہاکہ175(2) سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نےریمارکس دئیےکہ کیا سپریم کورٹ میں 185 میں مقدمہ آیاتھا،جس دائرہ اختیار میں فیصلہ ہوا کیا وہاں اختیار تھا۔
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ پشاور ہائیکورٹ کے پاس تحریک انصاف کو انصاف دینے کا آپشن ہی نہیں تھا ،سپریم کورٹ کے پاس ریلیف دینے کا مکمل اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ یہاں مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا مکمل انصاف فراہمی میں فریق بنے بغیر ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نےسوال کیاکہ کیا سپریم کورٹ نے کبھی کسی تیسرے فریق کو ریلیف دیا ہے ؟
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ بلکل سر آپکا اپنا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس امین الدین خان نےسوال کیاکہ کیا ہائیکورٹ میں مقدمہ واپس بھجوانے کی استدعا کی گئی تھی۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہاکہ مخصوص نشستوں کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التواء تھا،ہائیکورٹ نے خود کہا ہے کہ پی ٹی آئی ہوتی تو ہم فیصلہ دیتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ ہائیکورٹ کے اختیارات کو کم کیوں بتایا جا رہا ہے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ کوئی ضروری فریق ہے تو بنا لیتے۔
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ گیارہ ججز نے تحریک انصاف کو ریلیف دیا، عدالت کے سامنے ایشو عوام کی خواہش کا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نےکہاکہ یہ ایشو اتنا آسان نہیں ۔ ان 80 افراد نے آج تک سنی اتحاد کونسل کے نہ ہونے کا موقف نہیں اپنایا۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہاکہ کل سپریم کورٹ پر کوئی قبضہ کرلے تو کیا عدالت 40 سال بعد اسکی ہو جائے گی۔
جسٹس امین الدین خان نےکہاکہ یہ قبضہ پھر آپ نے 80 لوگوں پر کیا ،آپ کہتے ہو الیکشن کمیشن غلط ہے ہائیکورٹ غلط تو اپنا بھی بتائیں۔
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ ہم نے غلطی مانی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نےکہاکہ آپ نے غلطی مانی ہے تو پھر سامنا کریں، آپ کہتے ہیں جو ہے ہی نہیں وہ نیا ہم کردیں۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہاکہ جو فاطمہ جناح مانگ رہی تھی وہی ہم مانگ رہے ہیں۔سنی اتحاد کونسل سے 79 ممبران نکل کر پی ٹی آئی میں جانے پر بہت خوش ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نےسوال کیاکہ جو اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ہدایات کی گئیں وہ پوری ہوئیں؟
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ تمام ممبران نے اپنے کوائف اور پارٹی وابستگی جمع کرائی تھی، سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نا کیا؟ الیکشن کمیشن یہاں آ کردھڑلے سے کہتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کریں گے اور نظر ثانی بھی کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو نوٹیفائی کیا تھا۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہاکہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کیا لیکن مخصوص نشستیں دیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نےکہاکہ یہ نظر ثانی تو بقیہ 40 نشستوں پر ہے۔
جسٹس امین الدین خان بولےکہ نظر ثانی تمام 79 نشستوں پر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہرنےکہاکہ میں نے بار بار پوچھا ہے الیکشن کمیشن سے انہوں نے کہا 40 سیٹ پر نظر ثانی ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلایا۔
جسٹس محمد علی مظہرنےسوال کیاکہ بتائیں آپ نے پی ٹی آئی کے 39 ممبران کو نوٹیفائی کیا؟
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نےکہاکہ جی ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کر دیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نےسوال کیاکہ آپ نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دی ہیں؟
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نےکہاکہ ہم 39 کی حد تک تو مخصوص نشستیں نہیں دے سکتے یہ تو باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےسوال کیاکہ کون سا فارمولا ہوتا ہے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نےکہاکہ اگر فارمولا ہوتا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دیں؟ فیصلہ ہو لینے دیتے اور پھر سب کو ایک ساتھ مخصوص نشستیں دیتے۔
جسٹس محمد علی مظہر بولےکے نہیں باقی جماعتوں کو نہیں دی گئیں مخصوص نشستیں۔
ڈی جی الیکشن کمیشن نےکہاکہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دے دی ہیں۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ یہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کوئی تو تقدس ہونا چاہئے،کیس کیا ہے یہ مسئلہ نہیں ہار جائیں گے، بات سپریم کورٹ کے وقار اور مستقبل کی ہے،سپریم کورٹ کے حکم کی کچھ تو عزت اور تکریم ہونی چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہرنےکہاکہ غلطیاں کئی بار یہاں ہماری جانب سے ہی ہوتی ہیں، ماضی میں تین دو یا چار تین کی کنفیوژن نہ پھیلائی جاتی تو الیکشن بھی وقت پر ہوتے۔
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواستیں تو فوراً مسترد ہونی چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل بولےکہ یہ سب ہمارے ادارے ہیں، آج میں بیٹھا ہو کل کوئی اور بیٹھا ہوگا،اگر کوئی رول ایکٹ اور آئین کیخلاف ہو تو کیا اسے ماننا لازمی ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ میرے خیال میں اسے ماننا ضروری ہے جب تک کالعدم نہ ہوجائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ پھر تو الیکشن کمیشن نے بھی ایسا ہی کیا، اسکا یہ مطلب نہیں کہ میرے ہوتےہوئے آپ سپریم کورٹ کو لتاڑے۔
جسٹس امین الدین خان نےکہاکہ آپ چاہتےہیں سارےچین آف ایونٹس کونظراندازکرکےآپ کوریلیف دیں۔

Leave a reply