اب بینچزبنانےکااختیارچیف جسٹس کانہیں،تین ججز کا ہے،چیف جسٹس

0
37

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاہےکہ اب بینچزبنانےکااختیارچیف جسٹس کانہیں بلکہ تین ججزکاہے۔پہلےبینچ دیکھ کرہی بتادیاجاتاتھاکہ کیس کافیصلہ کیاہوگا،اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں کون سے ججز کیس سنیں گے۔
تعطیلات کے بعد سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوگیانئےعدالتی سال کےآغازپرچیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ ر یفرنس کاانعقادکیاگیا۔ فل کورٹ ریفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔جس میں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اٹارنی جنرل اوربارکونسلزکےنمائندگان نےخطاب کیا۔فل کورٹ ریفرنس کوسپریم کورٹ کےیوٹیوب چینل پربراہ راست نشرکیاگیا۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوسکے،جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے،ایڈہاک ججز جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ شریعت اپیلیٹ بینچ کے ممبران جسٹس قبلہ ایاز، جسٹس خالد مسعود بھی فل کورٹ ریفرنس میں شریک ہوئے۔
نئےعدالتی سال کےفل کورٹ ریفرنس سےچیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کاخطاب کرتےہوئے کہناتھاکہ اس طرح کی تقریب میں اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بارز کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، 9 روز بعد میرا بطور چیف جسٹس پاکستان ایک سال مکمل ہو جائے گا،میں جب چیف جسٹس بنا تو چار سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ اجلاس بلایا، میں نے سپریم کورٹ کی سماعتیں براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ جو براہ راست نشر ہوا وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا،اس فیصلہ کے بعد اختیارات چیف جسٹس سے لے کر تین ججز کو سونپے گئے۔
قاضی فائزعیسیٰ کامزیدکہناتھاکہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا،اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں کون سے ججز کیس سنیں گے،سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے ڈیپوٹیشن افسران کو واپس بھیجا، ڈیپوٹیسن پر بیٹھے افسران مقدمات مقرر کرانے میں مداخلت کرتے ہیں،ڈیپوٹیسن والے افسران صرف تین سال تک دوسرے محکمے میں رہ سکتے ہیں، ڈیپوٹیسن والے افسران سپریم کورٹ کے ملازمین کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
گفتگوکوجاری رکھتےہوئےچیف جسٹس کاکہناتھاکہ پہلے کاز لسٹ منظوری کیلئے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی اب ایسا نہیں ہوتا،ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلاں جج کے پاس لگ جائے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے،اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے،ہم کوشش کریں گے کہ وکیلوں کی سہولت کیلئے ہر دو ہفتے بعد کاز لسٹ جاری کی جائے۔
قاضی فائزعیسیٰ کامزیدکہناتھاکہ اکثر صحافی کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا حالانکہ یہ اختیار اب 3 رکنی کمیٹی کے پاس ہے،ڈیپوٹیشن ملازمین کو واپس بھیجنے کے بعد 146 سپریم کورٹ کے مستقل ملازمین کو ترقی ملی،اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں خالی آسامیوں کو بھی پر کیا گیا،ہم اور آپ یہاں عوام کی خدمت کیلئے بیٹھے ہیں، چیف جسٹس کیلئے مہنگی گاڑیوں کی ضرورت نہیں تھی اس لیے ان کو بھی واپس بھیج دیا گیا،سپریم کورٹ کے اخراجات میں کمی کیلئے بھی کچھ اقدامات کیے، کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کی جگہ سات ایکڑ زمین دی گئی کہ رجسٹری بنائیں،ہم نے سات ایکڑ زمین اور 6 ارب روپے حکومت کو واپس کر دیئے،ہم نے کہا کراچی میں سات ایکڑ پر وفاقی ٹربیونلز بنائے جائیں۔
چیف جسٹس کاکہناتھاکہ سپریم کورٹ ملازمین کی تنخواہیں باقی تمام اداروں سے زیادہ ہیں، سپریم کورٹ ملازمین کو تین اضافی تنخواہیں دی جاتی رہی ہیں،میں نے تین تنخواہوں کے بجائے 25 ہزار ہر سپریم کورٹ ملازم کا بونس مقرر کیا،ملازمین کا بونس کم کرنے سے جو بچت ہوئی اس سے 131 نئے کمپیوٹرز خریدے، اخراجات کم کر کے دو الیکٹرک گاڑیاں بھی لی ہیں،چونکہ آج کل فیول بچت کی بات ہوتی ہے اس لیے الیکٹرک گاڑیاں خریدی ہیں۔

Leave a reply