ججزٹرانسفرکےحوالےسےکونسااصول اپنایاجائےگاآئین خاموش ہے،جسٹس نعیم اخترافغان

0
18

ججزٹرانسفراورسینارٹی کےکیس میں جسٹس نعیم اخترافغان نےریمارکس دیتےہوئےکہاکہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنایا جائے گا آئین خاموش ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔دیگرججزمیں جسٹس شکیل احمد،جسٹس نعیم اختر افغان ،جسٹس صلاح الدین پنوراور جسٹس شاہد بلال شامل تھے۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کےدلائل:
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےدلائل دیتےہوئےکہاکہ اسلام آبادہائیکورٹ میں ٹرانسفرججزکی نئی تقرری نہیں ہوئی،ججزٹرانسفرپرآئیں ہیں تونئےحلف کی ضرورت نہیں،سپریم کورٹ قراردےچکی سنیارٹی تقرری کےدن سےشروع ہوگی۔
جسٹس شکیل احمد نےکہاکہ سیکرٹری لانےٹرانسفرنگ ججزکی حلف نہ اٹھانےکی وضاحت کیوں دی۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ اسلام آبادہائیکورٹ کی ججزکی سنیارٹی کاتعین چیف جسٹس عامرفاروق نےکیا،جسٹس عامرفاروق سنیارٹی کےتعین میں مکمل آزادتھے ،4ہائیکورٹس کےچیف جسٹس اوررجسٹرارکی رپورٹ میں ججزتبادلہ پرکوئی سوال نہیں اٹھایاگیا،اسلام آبادہائیکورٹ5ججزکی ریپریزنٹیشن پرجسٹس عامرفاروق نےفیصلہ دیا۔
جسٹس محمدعلی مظہرنےریمارکس دئیےکہ ججزکی ریپریزنٹیشن اورفیصلےپردرخواست گزاروکلانےدلائل میں ذکرتک نہیں کیا،ریپریزنٹیشن میں اسلام آبادہائیکورٹ ججزکی استدعاکیاتھی۔
جسٹس شکیل احمدنےکہاکہ کسی نےریپریزنٹیشن اورفیصلہ کوپڑھانہ ہی دلائل دئیے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےکہاکہ ججزنےٹرانسفرنگ ججزکی دوبارہ حلف اٹھانےپرسنیارٹی کےتعین کی استدعا کی۔
جسٹس محمدعلی مظہرنےکہاکہ عدالت کودرخواست گزارججزکےوکلانےتمام باتیں نہیں بتائیں۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ آئین کےآرٹیکل 200میں ججزٹرانسفرزکاطریقہ واضح ہے،ججزٹرانسفرزکےمعاملےپرویٹوپاورعدلیہ کودی گئی ہےایگزیکٹوکونہیں، ججز ٹرانسفرزکےوقت تمام چیف جسٹسزنےاپنی آمادگی ظاہرکی۔
جسٹس صلاالدین نےکہاکہ مگرسنیارٹی کےمعاملےپرکسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گی۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ سینارٹی کوئی ایسامعاملہ نہیں تھاجوچیف جسٹس کےعلم میں لایاجاتا۔
جسٹس نعیم اخترافغان نےکہاکہ ججزٹرانسفرکےحوالےسےکونسااصول اپنایا جائے گاآئین خاموش ہے،اس معاملےمیں کونسااصول اپنایاگیاکہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کیلئے چناگیا؟جسٹس ڈوگرلاہورہائیکورٹ میں سنیارٹی میں15ویں،اسلام آبادہائیکورٹ میں پہلےنمبرپرآگئے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےکہاکہ ججزاسلام آبادہائیکورٹ ٹرانسفر ہوچکے تھے،اسلام آبادہائیکورٹ کےچیف جسٹس ہی مجازتھے،اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 175اےشامل ہوا،آئین سازوں نےآرٹیکل 200کونہیں نکالا،یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل175اےکےبعدججزکاآرٹیکل 200پرتبادلہ نہیں ہوسکتا۔
جسٹس شکیل احمد نےکہاکہ ججزکاتبادلہ پبلک انٹرسٹ میں ہوگا،یہاں ججزکےتبادلہ میں پبلک انٹرسٹ کیاتھا۔
جسٹس محمدعلی مظہرنےکہاکہ ججزکےٹرانسفرپرسیفٹی وال لگاہے،رضامندی اور مشاورت کےبعدتبادلہ نہیں ہوسکتا۔
جسٹس نعیم اخترافغان نےکہاکہ کیاآرٹیکل200لےذیلی سیکشن ایک اوردوکوایک ساتھ پڑھاجائے،کیاآرٹیکل200لےذیلی شق2کےتحت تبادلہ عبوری نہ ہوگا ۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ جج کاتبادلہ عارضی ہوگاذیلی سیکشن کےتحت اضافی الاؤنسز ملےگے،جج کاتبادلہ مستقل ہوگااورکوئی اضافی الاؤنس نہیں ملےگا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نےکہاکہ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے،ججزٹرانسفر کے نوٹیفکیشن میں مستقل یاعارضی کاذکرنہیں۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےکہاکہ ٹرانسفرنگ ججزمیں کسی نےعارضی یامستقل ٹرانسفرکااعتراض نہیں اٹھایا،ٹرانسفرنگ ججزسےمستقل ٹرانسفرکی رضامندی لی گئی۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، آئندہ سماعت پر منیر اے ملک جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے۔

Leave a reply