سنہری مسجد: ایک لازوال تاریخی ورثہ

فیچر:( میسم عباس)
پاکستان کا دل شہر لاہور جو تعمیرات، فن وثقافت کی تاریخ اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے، وہیں اسلامی تہذیب کے آثار بھی بے حد نمایاں ہیں۔ مغل دور حکمرانی میں تعمیر ہونے والی بادشاہی مسجد اس شہر کی ایک نمایاں شناخت ہے، وہیں پر دیگر تاریخی مساجد میں ایک چمکتا دمکتا نام ’’ سنہری مسجد ‘‘ کا ہے۔ جو ایک لازوال تاریخی ورثہ ہے۔
یہ مسجد اپنے سنہرے گنبدوں اور مغلیہ فنِ تعمیر کی دلکشی کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہے۔ مسجد کی تعمیر کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں، تاریخ کے اوراق کے مطابق اس مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ محمد شاہ کے دورِ حکومت میں سن 1749 سے 1754 کے درمیان مکمل ہوئی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق محمد شاہ کے ڈپٹی گورنر نواب بھکاری خان نے اس مسجد کو اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا تھا۔
یہ مسجد اپنے منفرد طرزِ تعمیر اور پرکشش گنبدوں کی وجہ سے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔
تین سنہرے گنبد اس مسجد کی تعمیر کو ممتاز بناتے ہیں، جو سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں اور دور سے لوگوں کو اللہ کے اس گھر کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ گنبدوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سنہری پیتل کی وجہ سے اسے ’’سنہری مسجد‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسجد کا محراب اور مینار بھی نہایت جاذب نظر ہیں، جو مغلیہ دور کے شاندار طرز تعمیر کی گواہی دیتے نظرآتے ہیں۔
اس مسجد کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ اسے ارد گرد موجود بازارکی سطح سے 11 فٹ اونچائی پر تعمیر کیا گیا ہے ، سیڑھیوں کی مدد سے مسجد کے صحن تک پہنچا جاسکتا ہے۔
سنہری مسجد کے داخلی دروازے پر سنگ مرمر کے ساتھ خوبصورت نقش و نگار سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں ، مسجد کا کشادہ صحن نمازیوں کو عبادت کےلئے پرسکون ماحول فراہم کرتا ہے۔ اسکی دیواروں پر نفیس خطاطی کے ساتھ قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں، جو ماحول کو مزید روح پرور بناتی ہیں۔
مسجد کے خوبصورت میناروں کی بلندی چون فٹ ہے، جو مرکزی گنبد کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔
سنہری مسجد لاہور کے تاریخی اور کاروباری علاقے میں واقع ہے،جو پاکستان کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تاجروں اور سیاحوں کےلئے گوشہ سکون کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس کا خوبصورت وجود لاہور کی عظمت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔