سویلینزکاملٹری ٹرائل: آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ ملٹری ٹرائل ممکن نہیں تھا،جسٹس جمال مندوخیل

0
31

سویلینزکےملٹری ٹرائل کےکیس میں جسٹس جمال مندوخیل نےریمارکس دئیےکہ آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ ملٹری ٹرائل ممکن نہیں تھا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کی ،وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث نےدلائل دیتےہوئے بتایا کہ اکیسویں ترمیم جنگی صورتحال کے لیے کی گئی تھی اور اس آئینی ترمیم کا مقصد یہ تھا کہ ملٹری ٹرائل نہیں کیے جا سکتے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیےکہ آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ ملٹری ٹرائل ممکن نہیں تھا۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ 9 مئی کے ملزمان 2 ون ڈی ون کے جرائم میں آتے ہیں اور ان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا۔ 2 ون ڈی ون کا سیکشن 1967 سے آرمی ایکٹ میں شامل ہے اور آج تک کے عدالتی فیصلوں میں اس شق کی توثیق کی گئی ہے۔ اکیسویں ترمیم والے بینچ نے 2 ون ڈی ون کو تسلیم کیا تھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں بنیادی حقوق کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ملٹری کورٹ کو تسلیم کرنے کا اظہار کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردانہ کارروائیوں کا ٹرائل کہاں ہوگا؟
وکیل خواجہ حارث نےوضاحت کی کہ آرمی ایکٹ کے تحت ایسے جرائم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔ آئینی ترمیم کے بغیر بھی دہشت گردی کے واقعات کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ممکن ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے حالیہ خبر کا ذکر کیا کہ کچھ لوگوں کو اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے دو کو چھوڑا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم تاوان کے لیے کسی آرمڈ پرسن کو اغوا کرے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اگر فرض کریں کہ ملٹری کورٹ میں ٹرائل ممکن نہیں ہے، تو اس صورت میں اس کیس پر کیا اثر پڑے گا؟
بعد ازاں آئینی بینچ نے مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Leave a reply