طاغوت اور خودساختہ انٹیلکچوئیلز

0
50

 تحریر: آنسہ شہزادی
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سوشل میڈیا نے معاشرے کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ لوگوں نے سوشل میڈیا کو ایسے استعمال کیا ہے جیسے ’’بندر کے ہاتھ میں ماچس کا آجانا‘‘۔ آج کل کم و بیش ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک مشہور ہٹ مکالمے’’طاغوت‘‘ کے بارے میں ہی بات ہو رہی ہے۔’’طاغوت‘‘کا اصل میں مطلب ہے کیا؟ در حقیقت کائنات کا ہر وہ کردار طاغوت ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اسکو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
’’طاغوت‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مضمون سے متعلق دوسرے اہم نکتے پر غور کرتے ہیں اور وہ ہے’’جہالت‘‘۔ اللہ پاک نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 111 میں فرمایا ہے: ’’اگر جاہلوں کے پاس فرشتے بھیج دیے جاتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم انکے سامنے جمع کر دیتے تو بھی یہ ایمان نہ لاتے‘‘۔
آئیے اب ٹی وی پروگرام کو دیکھتے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام جسکا موضوع خواتین کے حقوق ہوتا ہے۔ اس میں ایک مرد پاکستان کی پچانوے فیصد خواتین کو جاہل کہتا ہے۔ سامنے بیٹھی ایک لڑکی اس پر احتجاج کرتے ہوئے جب اس آدمی سے معافی کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ آدمی اس لڑکی کو کہتا ہے کہ کیا آپ کو طاغوت کا پتا ہے، اس پر لڑکی کہتی ہے نہیں اور وہ کہتا ہے کہ بس پھر آپ جاہل ہیں اور جاہل کو جاہل کہنا فرض ہے۔
اس پر وہ کہتی ہے کہ آپ مجھے کوئی ریفرنس دیں۔ تو اس پر جناب نے کہا: کہ’’عالم اور جاہل‘‘ برابر نہیں ہو سکتے اور جیسا کہ آپکو طاغوت کا مطلب نہیں پتا اس لیے آپ جاہل ہیں۔ اسی کے ساتھ دوسری جانب خلیل الرحمٰن قمر بھی اپنا حصہ پروگرام میں ڈالتے ہیں اور ہوسٹ کو کہتے ہیں کہ اس لڑکی سے مائیک واپس لو اور ہوسٹ نے کہا جی آئیے آڈینس کی طرف چلتے ہیں۔
ساحل عدیم کے بقول پاکستان کی 95 فیصد خواتین جاہل ہیں۔ تو پوچھنا یہ تھا کہ ابھی چند روز قبل لاہور ہائیکورٹ کی پہلی چیف جسٹس بننے والی خاتون ان پچانوے فیصد میں شامل ہیں یا باقی پانچ فیصد میں اور کیا ان کو طاغوت کا مطلب آتاہوگا؟
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے’’جاہل‘‘ کا لفظ ہمیشہ خواتین کے ساتھ ہی جوڑا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں یہ خودساختہ انٹیلکچوئیلز ہی خواتین کے حصول علم کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر وقت ساحل عدیم جیسے خودساختہ انٹیلکچوئیلز صرف یہ ہی بات کرتے ہیں کہ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹیز پڑھنے کے لیے نہ بھیجیں۔ کیونکہ اس سے بچیوں کے دماغ خراب ہوتے ہیں۔
یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ایشیاء میں واقع ہے جہاں عربی زبان نہیں بولی جاتی۔ تو کیا ایسے میں عالم یا جاہل ہونے کا معیار ایک غیر علاقائی زبان کا ایک لفظ ہے؟ کیا یہ اطلاق دوسری زبانوں کے الفاظ پر بھی ہوتا ہے؟
’’جہالت‘‘ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اسے ایک مخصوص صنف کے ساتھ منسلک کرنا بھی جہالت کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ساحل عدیم اور خلیل الرحمٰن قمر جیسے خودساختہ انٹیلکچوئیلز کے ٹاؤٹ ہر وقت اُنکے قول و فعل کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ ان خودساختہ انٹیلکچوئیلز کے سوشل میڈیا پر فالورز بھی بُہت زیادہ ہیں اور یہ فالورز بغیر کسی فیکٹ چیک کے ان خودساختہ انٹیلکچوئیلز کے قول و فعل پر ایمان لے آتے ہیں۔ انکو لگتا ہے کہ جو بات انکے پیر و مرشد نے بیان کی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
یہ نام نہاد خود ساختہ انٹیلکچوئیلز صرف اور صرف اپنی فین فالونگ بڑھانے اور لائم لائٹ میں رہنے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو یہاں پر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے رول ماڈل ان خود ساختہ انٹیلکچوئیلز کے بجائے اُن لوگوں کو بنائیں جو حقیقت میں رول ماڈل بنائے جانے کے قابل ہیں اور اگر غلطی سے ایسے لوگ کبھی انکے رول ماڈل تھے بھی، تو انکو رول ماڈل کے مینار سے گرانے میں دیر نہ کریں۔ کیونکہ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خود ساختہ انٹیلکچوئیلز کسی دن آپکو بھی کسی بات پر جاہل قرار دے دیں۔
پسِ تحریر! شنید ہے کہ یہ پروگرام پلانٹڈ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے تو یہ بات اور بھی قابلِ مذمت ہے۔

Leave a reply