عدلیہ کیلئے انقلابی فیصلے کرنا ہونگے تبدیلی لانی تو صحیح معنوں میں لائیں،مولانا

0
50

سربراہ جمعیت علمااسلام (ف)مولانافضل الرحمن نےکہاہےکہ عدلیہ کیلئے انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے تبدیلی لانی تو صحیح معنوں میں تبدیلی لائیں، ہمارے ملک میں انگریز دور کا نظام موجود ہے پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔ یہاں بات کرو تو توہین عدالت کامقدمہ بن جاتا ہے۔
قومی اسمبلی میں سربراہ جمعیت علمااسلام(ف)مولانافضل الرحمن کااظہارخیال کرتےہوئےکہناتھاکہ چند روز قبل پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت میں معزز اراکین کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کی شدید مذمت کرتا ہوں،آپ نے جو اپنے کولیگز کے حوالہ سے جو اقدام کیا اس کو سراہتے ہیں یہ جو ہوا صرف اپوزیشن ارکان کے ساتھ نہیں اس ایوان کے ساتھ ہوا ہےآپ کی قیادت میں اس ایوان کو تین روز کے لیے بند کر دیا جانا چاہئے تھا احتجاجاً کہ جو ہوا وہ درست نہیں ہمیں کچھ وقت پبلک کے لیے بھی دینا چاہئےمیں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حالات کے حوالہ سے بات کی تھی ۔جن علاقوں میں امن ہے وہاں ادراک نہیں کیا جا رہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کیا حالات ہیں یہ ہمارا گھر ہے اور اگر کوئی یہاں حالات خراب کرنے کی کوشش کرےتو ہمیں روکنا ہو گا۔
مولانافضل الرحمن کامزیدکہناتھاکہ میں نے بتایا تھا ہمارے علاقے میں شام ہوتے ہی تھانے میں پولیس بند ہو جاتی ہےنظام کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے، فوج کہاں ہے؟آج وہاں پولیس احتجاج کر رہی ہےیہاں ادارے اور ان کے سربراہ اپنی ایکسٹینشن میں لگے ہوئے ہیں ایکسٹینشن کا عمل اگر فوج میں ہے تو غلط، عدالت میں ہے تو بھی غلط اور بیوروکریسی میں بھی غلط کل کو پارلیمنٹ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہمیں بھی ایکسٹینشن دی جائے۔ مولانا فضل الرحمن کے جملے پہ ایوان میں قہقہےلگ گئے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی گئی ،آپ نے وہاں بیٹھ کر مجھ پر تنقید کی کہ کیوں ایکسٹینشن دی، آج آپ خود کیسے اس فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں بات آج یہاں کیوں آ گئی کہ ایک کہے چیف جسٹس میرا ہو، دوسرا کہے چیف جسٹس میرایہاں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے معیارات اور ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اوریہاں مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں۔
سربراہ جمعیت علمااسلام کاکہناتھاکہ ہمارے ملک میں انگریز کا بنایا ہواانصاف کا نظام ہے جہاں صدیوں انصاف نہیں ملتاہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہو گا۔
سپیکرایازصادق نےریمارکس دئیےکےآئین میں درج ہے عدلیہ اور فوج کے خلاف بات نہیں ہو سکتی۔
مولانافضل الرحمن کاجواب اصلاح کے لیے بات ہو سکتی ہے؟
سپیکرنےکہاجی اصلاح کے لیے ہو سکتی ہے۔
مولانافضل الرحمن کامزیدکہناتھاکہ آج ساٹھ ہزار مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا پڑے ہیں۔ ہمارے ملک میں انگریز دور کا نظام موجود ہے عدلیہ کیلئے انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے تبدیلی لانی ہے تو صحیح معنوں میں تبدیلی لائیں اپنی روش کو تبدیل کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا یہاں بات کرو تو توہین عدالت کامقدمہ بن جاتا ہے، آپ کے آئین میں لکھا عدالتوں سے متعلق بات نہیں کریں،اسپیکر کا لقمہ اراکین کو اس طرح گرفتار کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جانی چاہیے پارلیمنٹ لاجز بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہے وہاں بھی پولیس کے جانے پر پابندی ہونی چاہیے ۔ عدالتی اصلاحات ہونی چاہیں ہمیں ان اصلاحات کی طرف بڑھنا ہوگا اپوزیشن کو اعتماد میں لیں۔

Leave a reply