عمران خان سے کیا غلطیاں ہوئیں؟

بلاگ: آنسہ شہزادی
0
64

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان مقبول لیڈر تو ضرور ہیں، لیکن کیا وہ اپنے نظریات پر قائم رہتے ہیں، یا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں، انہیں کچھ حلقے یوٹرن خان کیوں کہتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب انکی سیاسی زندگی کا جائزہ لیکر حاصل کرتے ہیں۔
دوہزاراٹھارہ میں تبدیلی کے نعرے لگا کر جب عمران خان اقتدار میں آئے تو مجھ  سمیت بُہت سے لوگوں کو لگا کہ واقعی ملک میں غیرمعمولی تبدیلی آجائے گی،نظام بدل جائے گا۔ پروٹول ختم کرکے بااثر لوگ اور غریب برابر نظڑآئیں گے، مگر عملی طور پر ایسا نظر نہیں آیا۔ ملک کو لوٹنے والوں کو زبانی بے نقاب کرنے کا سلسلہ ضرور جاری رہا۔
لوگوں نے عمران خان جیسے انقلابی لیڈر کی عملی زندگی پر نظر رکھنا شروع کی۔ وہی محل نما وزیراعظم ہاوس، وہ درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول اور ٹھاٹھ باٹھ، وہی وزرا کی فوج ظفر موج، وہی تھانوں کا کلچر، وہی دفتروں میں عام آدمی کی ذلت و رسوائی اور زیرو شنوائی۔ وہی عثمان بزدار اور فرح گوگی کی کرپشن کی کہانیاں۔ موٹیویشنل تقریریں تو بہت سنیں مگر عوام کی حالت نہ بدلی۔ تبدیلی کے آثار کہیں نظر نہیں آئے۔
پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے سے پہلے عمران خان سمیت سب سیاستدانوں کے نعرے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ہم مہنگائی کم کردیں گے ، آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے، عوام پر بھاری ٹیکسز نہیں نافذ کریں گے اور ریاست کو ماں سمجھیں گے۔ لیکن جب یہ نام نہاد انقلابی سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تو ریاست کو ماں سمجھنے کے بجائے اُسکے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔
عمران خان بھی باقی سیاستدانوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آئے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کو فخر سمجھتے رہے، ان کے گن گاتے رہے ۔انکی ڈکٹیشن لیتے رہے۔ اسکے علاوہ عمران خان نے ہمیشہ سے یہی کہا کہ میں نے کبھی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی ۔
پھر وہی ہوا، جب ان سے کرسی چھین لی گئی، تو انہیں یاد آیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہئے، اسٹیبلشمنٹ کو آئین میں دی گئی حدود کے اندر رہنا چاہئے۔ پھر بھول گئے کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے۔ پھر بھول گئے کہ آپ کس کس سے ڈکٹیشن لیتے رہے۔
عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے مخالف سیاستدان دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، عمران خان کی مقبولیت کی وجہ ہی یہی تھی کہ انہوں نے مخالف سیاستدانوں کو سسلین مافیا قرار دیکر عوام سے اپنے لئے ووٹ لیا۔ جب اقتدار کے دوران ان کا طرز حکومت بھی سسلین مافیا جیسا نظرآیا اور عوام بے آسرا نظرآئے تو عمران خان کی شخصیت پر سوال اٹھنے لگے کہ وہ کونسی خامیاں آپ کے اندر بھی پیدا ہوئیں جسکی وجہ سے آپ کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کو اتنا کیوں پاور فل بنا دیا کہ انہوں نے راتوں رات آپکی حکومت کو گھر چلتا کیا۔
اقتدار کے بعد جب پانی پلوں کے نیچے سے گذر گیا تو یاد آیا کہ آپ کے ارد گرد میر جعفر اور میر صادق تھے۔ ایسا لیڈر تو اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہی نہیں ہونا چاہئے، جو ساڑھے تین سال تک اپنے ارد گرد میر جعفر اور میر صادق ہی نہ پہنچان سکا ہو۔
دوسری صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے، کہ آپ کو استعمال کرنا بہت ہی آسان تھا۔ آپ وقت گذرنے کے بعد اعتراف کرنے کےعادی نظرآنے لگے، کبھی کہتے ہو کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنا ہماری غلطی تھی، کبھی کہتے ہو اسمبلیوں سے استعفے دینا ہماری غلطی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جو آپ کے ووٹرز آپ کے سامنے اٹھا رہے ہیں کہ کیا صرف غلطیاں سدھارنے کےلئے آپ کو دوبارہ اقتدار کا چانس دیا جائے؟

Leave a reply