مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر

0
12

سویلینزکاملٹری کورٹ میں ٹرائل کےکیس میں جسٹس محمد علی مظہر نےریمارکس دیتےہوئےکہاکہ مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کی، لاہور بار کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل حامد خان کےدلائل:
وکیل حامدخان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرائی گئیں۔ معروضات میں کہا گیا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے اور آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جا چکا ہے، لہذا انہیں غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وکیل حامد خان نے دلائل کے دوران سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ بھی دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟
وکیل حامد خان نے بتایا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، جب پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا اور 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین آیا جس میں بنیادی حقوق متعارف کرائے گئے۔ آرمی ایکٹ 1952 میں پہلی ترمیم 1967 میں ہوئی۔ انہوں نے1967 میں مجیب الرحمان اور دیگر کو تلہ سازش کیس میں ملزم بنانے کا ذکر کیا اور بتایا کہ سازش پر پہلا مقدمہ 1951 میں راولپنڈی سازش کے تحت درج کیا گیا، جس کا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنا تھا۔
وکیل حامد خان نے مزید کہا کہ راولپنڈی سازش کے ملزمان میں جنرل اکبر خان سمیت سویلین افراد بھی شامل تھے اور ان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں بلکہ سپیشل ٹریبونل کے تحت کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ 1951 میں کیا آرمی ایکٹ موجود تھا۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 1911 کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپیشل ٹریبونل صرف پنڈی سازش کے ٹرائل کے لیے بنایا گیا تھا؟
وکیل حامد خان نے کہا کہ پنڈی سازش میں اعلیٰ سویلین اور غیر سویلین افراد شامل تھے اور ان کا ٹرائل ملٹری کورٹ کی بجائےسپیشل ٹریبونل میں ہوا تھا۔ ملٹری کورٹ پہلی بار 1953 میں تشکیل دی گئی اور 1953 میں لاہور میں احمدیہ ہنگاموں کے دوران شہر کی حد تک مارشل لگایا گیا تھا، جس کے بعد احمدیہ ہنگاموں کے ملزمان کے ٹرائل کے لیے ملٹری کورٹس بنائی گئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل اور حامد خان کے درمیان مکالمہ ہوا، جس میں جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ ان تمام باتوں کا ملٹری ٹرائل سے کیا تعلق ہے۔
اس پروکیل حامد خان نے جواب دیا کہ مارشل لاء کے دوران بھی ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں اور مارشل لاء کا راستہ نکالنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین میں مارشل لاء کی کوئی اجازت نہیں جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مارشل لاء کا راستہ بند ہوگیا ہے۔
وکیل حامد خان نے آرمی ایکٹ میں 1967 کی ترمیم اور اس کے اثرات پر بات کی۔ اس وقت غیر معمولی حالات تھے، خاص طور پر مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 1973 میں پاکستان میں متفقہ آئین آیا، جس کے بعد ماضی کے قوانین غیر متعلقہ ہوگئے تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 1973 کے آئین میں ماضی کے قوانین کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی باتیں تاریخی حوالے کی حد تک درست ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے حامد خان کو اپنے دلائل کو اسی موضوع تک محدود رکھنے کی ہدایت دی، ورنہ سماعت کا دائرہ بدل جائے گا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ وہ بات مکمل کرنے میں آدھا گھنٹہ مزید لے سکتے ہیں، لیکن جسٹس امین الدین خان نے بتایا کہ کل آئینی بینچ موجود نہیں ہے، اس لیے سماعت پیر کے دن ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔

Leave a reply