پاکستان میں 12صوبےبنانےکاپلان

بلاگ:عتیق مجید
پاکستان میں 12 صوبے بنانے کا پلان، 8 نئے صوبوں کے قیام کی تیاریاں زور پکڑنے لگیں۔ پنجاب کو 4،بلوچستان 4 ،خیبرپختوا 2 اور سندھ کو 2 بڑے صوبوں میں تقسیم کرنے کی تجاویز نے شہری حلقوں میں خوشی کے سائرن بجا دیے۔
پاکستان25 کروڑ کے قریب آبادی کےساتھ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہےلیکن حیرت انگیزطور پر اس ملک کی انتظامی تقسیم صرف چار صوبوں تک محدود ہے۔
جب ہم پاکستان کا موازنہ دنیا کےدیگر ممالک سےکرتےہیں تو یہ سوال شدت سےابھرتا ہےکہ کیاپاکستان کو موجودہ صورتحال میں مزیدصوبوں کی ضرورت ہے؟
یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان کی صوبائی تقسیم پر بات ہو رہی ہے، کیونکہ سیاسی،لسانی اور انتظامی تقسیم کا یہ موضوع قیام پاکستان کےبعد سے مسلسل بحث کا مرکز رہا ہے۔
حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کیا گیاہے جس کے مطابق فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژنز کو ملا کر ’’مغربی پنجاب‘‘ کے نام سے ایک نیا صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی ہےاور اگر قومی اسمبلی سے یہ بل منظور ہو گیا تو پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا صوبہ وجود میں آجائے گا۔
صرف ایک نہیں بلکہ کئی سیاستدان ملک کو 12 اور اس سے زائد صوبوں میں تقسیم کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ کے مطابق پنجاب اور بلوچستان کو تین تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیےاور کراچی کو الگ صوبہ ہونا چاہیے جبکہ سابق فاٹا کے لیے بھی صوبائی حیثیت کی تجویز سامنے آئی ہے۔
اس سے قبل طویل عرصے سےمختلف علاقوں سےنئےصوبوں کے قیام کی مانگ سامنےآتی رہی ہے، جیسےکہ جنوبی پنجاب میں’’سرائیکی صوبہ ‘‘’’بہاولپور صوبہ‘‘اور “ہزاره صوبہ، وغیرہ ۔ لیکن ابھی تک ان صوبوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔
دوسری جانب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے نئے صوبوں کے قیام اور اس سلسلے میں عوامی ریفرنڈم کرانے کےحالیہ ایک بیان کے بعد اس بحث میں مزید شدت آگئی ہے ۔فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی سوچ بہت مثبت ،نہایت اہم اور وقت کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کےوقت ملک کےمغربی حصےکی آبادی 3 کروڑ20لاکھ کےقریب تھی جو 78 برسوں کے دوران 8 گنا کے قریب بڑھ چکی ہے لیکن اس بدلتی صورتحال کے باوجود انتظامی صورتحال کو تبدیل نہیں کیا گیا جس کے نتیجےمیں وسائل اور مسائل میں خوفناک درجے کا عدم توازن پیدا ہو چکا ہے۔
دنیا بھر میں وقت کےساتھ انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے نئے ڈسٹرکٹ ،نئے ڈویژن اور نئے صوبے بنتےرہےہیں،جیسے کہ امریکہ جو کبھی 13 ریاستوں پر مشتمل تھا ،آج یہ تعداد50 تک پہنچ چکی ہے ،ہمارے ساتھ آزاد ہونے والےہمسایہ ملک بھارت کی 1947 میں 9 صوبے تھے جو اب بڑھ کر 28 ہوچکے ہیں ۔
پاکستان سے چھ گنا چھوٹا ملک نیپال کا رقبہ ایک لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر ہے لیکن اس کے 7 صوبے ہیں ۔65 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط سری لنکا کے صوبے ہیں ۔ 41 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا سوئٹزرلینڈ 26 صوبوں (کنٹونز) پر مشتمل ہے اور30 مربع کلومیٹر رقبے والے بیلجیئم کے 10 صوبے ہیں ۔
یہی نہیں ،اگر پاکستان کے چاروں صوبوں کے رقبے اور آبادی کا دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا ہرایک صوبہ کئی ممالک سے بڑا اور گنجان آباد ہے ۔
2 لاکھ 5ہزار مربع کلومیٹر پرمحیط پاکستان کا دل’’ پنجاب‘‘ رقبے کے اعتبار سے یونان، ہنگری اور پرتگال جیسے یورپی ممالک سے بڑا ہے اور اگر اس کی 12 کروڑ کی آبادی کا مقابلہ کیا جائے تواس کی آبادی جرمنی، ترکی، مصر، برطانیہ، فرانس اور اٹلی سمیت درجنوں ممالک سے زیادہ ہے۔
اب رخ کرتے ہیں سندھ کی طرف،6 کروڑ کی آبادی والا یہ صوبہ ایک لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہے۔رقبے میں یہ یونان، نپال اور شمالی کوریا جیسے ممالک سے بھی بڑا ہےجبکہ اس کی آبادی سعودی عرب، ملائیشیا، کینیڈا اور آسٹریلیا سے بھی زیادہ ہے۔
پہاڑوں اور وادیوں پرمشتل صوبہ خیبر پختونخوا کا 74 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ سری لنکا، ہالینڈ، بیلجیئم اور سوئٹزرلینڈ سے زیادہ ہےاور تقریباً 4 کروڑ نفوس والا یہ صوبہ سعودی عرب، آسٹریلیا، ملائیشیا اور نیپال جیسے ممالک سے زیادہ آبادی رکھتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے رقبے کی بات کی جائے تو یہ 3 لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہےاور یہ رقبہ اتنا وسیع ہے کہ برطانیہ، اٹلی، پولینڈ، ناروے اور جاپان جیسے ممالک بلوچستان میں سما جائیں۔ اس صوبے کی آبادی اگرچہ محض ایک کروڑ 20 لاکھ ہے لیکن جغرافیائی وسعت کے لحاظ سے یہ صوبہ دنیا کے کئی ممالک پر بھاری ہے۔
اب ذرا سوچیےکہ ایک ایسا ملک جس کے صوبےکئی کئی ممالک سے بڑے ہوں لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ صرف 4 صوبوں پرمشتمل ہو،،کیا واقعی پاکستان جیسے بڑے اور متنوع ملک کے لیے صرف چار صوبے کافی ہیں؟
اسی وجہ سے ماہرین پاکستان کیلئےمزید صوبوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق جنوبی پنجاب، ہزارہ، مکران، قلات، کراچی اور گلگت بلتستان جیسے خطوں کو علیحدہ صوبوں کی صورت میں نمائندگی ملنی چاہیےتاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ، گورننس میں بہتری اورعوام کی محرومیوں میں کمی آسکے ۔
دنیا کے چھوٹےچھوٹےسے ممالک اپنے عوام کو نمائندگی اورسہولیات فراہم کیلئے زیادہ صوبوں پرمشتمل ہیں۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنےمستقبل کو محفوظ بنانےکیلئے نئےصوبے قائم کرے کیونکہ یہی ہمارے مسائل کا حل ہےاور یہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ قومی اور عوامی ضرورت بھی ہے۔















