ڈیمزفنڈکیس:عدالت نےحکومت اورواپڈاسےمعاونت طلب کرلی

0
6

ڈیمزفنڈکیس میں سپریم کورٹ نےوفاقی حکومت اورواپڈاسےمعاونت طلب کرلی۔
سپریم کورٹ میں دیامر بھاشا ڈیمز فنڈ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان ،ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران میمن اور سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدلت میں پیش ہوئے۔
عدالت نےکہاکہ کیا ڈیمز فنڈز پرائیوٹ بنکس میں مارک اپ کیلئے رکھے جاسکتے ہیں؟عدالت نے وفاقی حکومت اور واپڈا سے معاونت طلب کرلی ۔
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نےکہاکہ سپریم کورٹ ڈیمز فنڈز کی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتی،سپریم کورٹ کے حکمنامے کے تحت وزیراعظم چیف جسٹس ڈیمز فنڈز اکاؤنٹ کھولا گیا،رجسٹرار سپریم کورٹ اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا،تحقیقات سے علم ہوا ڈیمز فنڈز اور مارک اپ میں بے قاعدگی نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیے کہ اکاؤنٹ کا عنوان نامناسب ہے،میری ہمیشہ پریکٹس رہی آئین و قانون کے بجائے عدالتی فیصلوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیے۔
وکیل واپڈانےکہاکہ ہم نے 2018 سے لیکر ابتک 19 عمل درآمد رپورٹس جمع کرائیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ہم نظرثانی نہیں سن رہے، صرف یہ دیکھ رہے ہیں سپریم کورٹ فنڈز رکھ سکتی ہے یا نہیں۔
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےکہاکہ فنڈز کے اکاؤنٹ کا نام تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔نیوز پیپرز میں آجکل بہت کچھ چھپ رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ نہ آپکو عدالت میں اخبار پڑھنے دیں گے نہ ہی یہاں اخبار پڑھیں گے،سیاسی باتوں کے بجائے آئین کے تحت معاونت کریں۔
سابق اٹارنی جنرل نےکہاکہ ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کیلئے ہی استعمال ہونا چاہیے، جب ڈیمز فنڈز کیس چل رہا تھا اس وقت آرٹیکل 184کی شق تین کے اختیار کا پھیلاؤ پورے ملک تک تھا۔
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نےکہاکہ ڈیمز فنڈز پبلک اکاؤنٹ میں گئے تو مارک اپ نہیں لیا جاسکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کیا فنڈز پبلک اکاؤنٹ سے مارک اپ کیلئے پرائیویٹ بنکس میں رکھے جاسکتے ہیں۔
ایڈیشنل آڈیٹر جنر ل نےکہاکہ 37سالہ ملازمت میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ہم ڈیمز بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی طرف نہیں جائیں گے۔
وکیل متاثرین نےکہاکہ تھرڈ پارٹی تنازعات بھی اس کیس سے جڑے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ نے اس وقت نظرثانی دائر نہیں کی، جب سپریم کورٹ میں عجیب و غریب چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا۔
لیگل ایڈوائزر سٹیٹ بنک نےکہاکہ ڈیمز فنڈ میں اس وقت ٹوٹل 23ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے،فنڈ میں آنے والی رقم 11 ارب جبکہ اس پر مارک اپ 12 ارب روپے سے زائد ہے۔
مارک اپ کون ادا کرتا ہے؟ چیف جسٹس کا سٹیٹ حکام سے استفسار
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نےکہاکہ مارک اپ ٹی بلز کے ذریعے حکومت ادا کرتی ہے، ڈیمز فنڈ کی مکمل تحقیقات کی ہیں، کوئی خردبرد نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ حکومت اپنے آپ کو کیسے اور کیوں مارک اپ دے رہی ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نےکہاکہ مارک اپ اس پیسے پر دیا جاتا ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ حکومت پر مارک اپ کا بوجھ ڈال کر خوش ہو رہے کہ 11 ارب روپے بڑھ کر 23ارب ہوگئے، یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے، کیا سپریم کورٹ ڈیمز فنڈ میں موجود رقم رکھ سکتی ہے؟
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نےکہاکہ ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کے پبلک اکائونٹ کے ذریعے واپڈا کو جانی چائیے۔
جسٹس نعیم افغان نےکہاکہ حکومت کی مالی حالت ٹھیک نہیں، اگر رقم واپڈا کو دی ہی نہ تو کیا ہوگا؟
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار میں ڈیمز تعمیر کی پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی؟
وکیل واپڈا سعد رسول نےکہاکہ عدالت کا مقصد صرف ڈیمز کی تعمیر کے حکم پر عملدر آمد یقینی بنانا تھا۔
چیف جسٹس نےکہاکہ عملدرآمد بنچ کی تشکیل کا آئین میں کوئی ذکر ہے؟
وکیل واپڈا سعد رسول نےکہاکہ آئین میں عملدرآمد بنچ کا ذکر نہیں لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہوجاتے ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل خالد جاویدنےکہاکہ عملدرآمد بنچ کا تصور کراچی بدامنی کیس سے شروع ہوا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ میں نے حلف آئین کی بالادستی اور عملدرآمد کابیڑا اٹھایا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں۔
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےکہاکہ سپریم کورٹ نے پیشرفت رپورٹس 184/3 کے دائرہ اختیار میں مانگی تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےاستفسارکیاکہ کیا ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کو دی جا سکتی ہے؟
سابق اٹارنی جنرل نے ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کو دینے کی مخالفت کردی۔
خالد جاوید خان نےکہاکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک صوبے کی حکومت اربوں روپے کی گاڑیاں خرید رہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ سیاستدان بھی ہیں،آپ اخباری خبریں چھوڑیں اور آئین کی بات کریں،آپ صرف ہیڈلائنز لگوانے کیلئے ایسی گفتگو کر رہے ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےکہاکہ یہ کہنا غلط ہے کہ میں ہیڈ لائنز لگوانا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےواپڈاوکیل،آڈیٹرجنرل اوراٹارنی جنرل کےنمائندگان کوہدایت کی کہ مسئلے کا قابل عمل حل تجویز کریں۔
عدالت نے قابل عمل تجاویز مانگتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔

Leave a reply