جسٹس جمال مندوخیل نےفوجی عدالتوں کےاختیارات کی وضاحت طلب کرلی

0
3

سویلینزکاملٹری ٹرائل کےکیس میں جسٹس جمال مندوخیل نےسوال کیاکہ کیا کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟ اور آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں کے اختیارات کی وضاحت بھی طلب کی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کےخلاف انٹراکورٹ اپیل پرجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نےسماعت کی۔ سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔
ملزم ارزم جنیدکےوکیل سلمان اکرم راجہ کےدلائل :
وکیل سلمان اکرم راجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے ۔
سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ فوجی عدالتوں کا قیام سویلین عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے اور یہ آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ،انہوں نےایف بی علی کیس 1962 کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کیس کے فیصلے کے مطابق سویلینز کا ٹرائل صرف اس صورت میں ممکن ہے جب بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نےمزیدکہاہےکہ ایف بی علی خود ایک سویلین تھے، لیکن ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایاکہ ایف بی علی چونکہ آرمڈ فورسز کا ممبر نہیں تھے، تو وہ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟ اور آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں کے اختیارات کی وضاحت بھی طلب کی۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عدالت نے ایف بی علی کیس میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ سویلینز کا ٹرائل بنیادی حقوق کے مکمل تحفظ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ اس کیس کے فیصلے کے مطابق سویلینز کا ٹرائل صرف اس صورت میں ممکن ہے جب بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی علی خود ایک سویلین تھے۔
انہوں نے 63 اے کے تحت وضاحت کی کہ کوئی بھی بنیادی حقوق نہیں لے سکتا، اور اسی حوالے سے ٹو ون ڈی کی تشریح بھی کی، جس میں یہ ذکر کیا گیا کہ کسی بھی فرد کو بنیادی حقوق کا دعویٰ نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس امین الدین خان نے اس بات پر تنقید کی کہ پروویژن برقرار ہونے کے باوجود چیلنج نہیں کیا جا رہا۔
سلمان اکرم راجہ نے آرٹیکل 1 کے حوالے سے وضاحت کی کہ یہ آرٹیکل بائی پاس کیا جا رہا تھا اور ان کا تمام فوکس آرٹیکل 15 پر تھا، جس کی بنیاد پر مختلف فیصلے ہوئے۔

Leave a reply