نیب ترامیم کیس: عمران کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی, چیف جٹس پاکستان
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کررہا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی سیاستدانوں کے علاوہ کسی کا احتساب نہیں کرنا چاہتا۔
عمران کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب کرنا چاہتی تھی۔ سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا۔ فاروق ایچ نائیک کے بعد عدالتی معاون وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے اور خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کردیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سوال کیا کہ نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں۔ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مؤکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اور جن اداروں، شخصیات پر نیب قانون لاگو نہیں ہوتا اس متعلق ترمیم نہیں کی گئی، پارلیمنٹ موجود تھی قانون سازی کر سکتی تھی۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 1999 سے 2018 تک تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں رہیں، کسی سیاسی جماعت نے نیب قوانین میں ایسی ترمیم نہیں کی، چیف جسٹس نے کہا کہ دیگر جماعتیں فریق نہیں، ترامیم پی ٹی آئی نے چیلنج کیں ان سے پوچھیں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چیلنج کی گئیں نیب ترامیم مخصوص تناظر میں کی گئیں، کرپشن عوام کے بنیادی حقوق متاثر کرتی ہے، عوام کا پیسہ لوٹا جانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، نیب قوانین کا اطلاق پبلک آفس ہولڈر پر ہوتا ہے، پبلک آفس ہولڈرز صرف سیاستدان نہیں ہوتے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب کی کارروائی کے لیے عوام کا اختیار کتنا ہے؟ میری سمجھ کے مطابق تو کوئی بھی شہری شکایت درج کر سکتا ہے، یہ اختیار نیب کا ہے پتہ کرے کرپشن ہوئی یا نہیں؟
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ 90 روز کے نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کرڑو سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟، نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔ خواجہ حارث نے مزید کہا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا؟ غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندگان کے تعینات کردہ افراد بھی پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہیں، فیصلے منتخب نمائندے کرتے ہیں عمل درآمد بیوروکریسی، اتفاق نہیں کرتا کہ سیاستدان کرپشن نہیں کرتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رولز کے مطابق پرنسپل اکاؤنٹنٹ افسر ہی ذمہ دار ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی سیکرٹری کرپشن سے انکار کرے تو سیاستدان کیا کر سکتا ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر سیکرٹری احکامات پر عمل کرے تو حکم دینے والا وزیر کیسے کرپٹ نہیں ہو گا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی غیرقانونی حکم ماننے والا خود ذمہ دار ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے، بطور سینئر وکیل آپ کی کیا رائے ہے، جسٹس منصور علی شاہ کی رائے درست تھی یا دو رکنی بنچ کا فیصلہ؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میری رائے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ درست نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف کیس کو پہلے لگایا جانا چاہیے تھا، باہر جاکر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں، گالیاں دینا تو آسان کام ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر جلد سماعت کی درخواست دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون آیا لیکن وہ پھر بھی چیلنج ہوا، حکم امتناع دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا، عدالت معطل نہیں ختم کرسکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ معزز چیف جسٹس کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پارلیمان کا وقار اہم ہے، قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا، اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا، باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں جے آئی ٹی تھی، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟ اس کیس میں آپ وکیل تھے۔ اس پر وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ ہو سکا۔
بعد ازاں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کسی نے گھر بنایا اس کے پاس رسیدیں نہیں ہوں گی، کیا رسیدیں مانگنا کسی کو بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکشن 19 اے فائیو میں ترمیم کو کس بنیادی حق کے متاثر ہونے پر کالعدم کیا گیا؟ نیب کے قیام کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ تھا، خواجہ حارث! آپ اپنے موکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو نقصان آپ کے موکل کا ہوگا، عمران خان اس وقت زیر عتاب ہیں، وہ نیب سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مشکلات کے باوجود عمران خان آج بھی ترامیم کا کیس لڑ رہے ہیں، وہ جانتے تھے ترامیم کالعدم ہونے سے ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان کو اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں تو مشکل پڑ جائے گی، کیا یہ بلیک میلنگ نہیں کہ کسی کو بھی اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں؟
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی؟ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ احتساب کا اتنا ہی سخت مؤقف تھا تو ٹیکس ایمنسٹی کیوں دیتے رہے؟ برطانیہ میں برسوں سے جمہوریت ہے وہاں ٹیکس ایمنسٹی کیوں نہیں دی جاتی؟، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاشی فیصلے ہوتے ہیں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے؟ نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے
مطابق وہ ترامیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے مزید دریافت کیا کہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کر دیا گیا ہے؟
کےپی میں گورنرراج سمیت دیگرآپشنزبھی ہیں،امیرمقام
نومبر 25, 2024
Leave a reply جواب منسوخ کریں
مزید دیکھیں
-
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا اختتام
اپریل 25, 2024 -
کار وبارکےاختتام پرڈالرکی قیمت میں ردوبدل
جولائی 11, 2024
اہم خبریں
پاکستان ٹوڈے ڈیجیٹل نیوز پر شائع ہونے والی تمام خبریں، رپورٹس، تصاویر اور وڈیوز ہماری رپورٹنگ ٹیم اور مانیٹرنگ ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں۔ ان کو پبلش کرنے سے پہلے اسکے مصدقہ ذرائع کا ہرممکن خیال رکھا گیا ہے، تاہم کسی بھی خبر یا رپورٹ میں ٹائپنگ کی غلطی یا غیرارادی طور پر شائع ہونے والی غلطی کی فوری اصلاح کرکے اسکی تردید یا درستگی فوری طور پر ویب سائٹ پر شائع کردی جاتی ہے۔