حکومت جو حرکتیں کررہی ہے اُس پر ہم اپنا ردعمل دیں گے،مولانافضل الرحمان

0
5

سربراہ جمعیت علمااسلام(ف)مولانافضل الرحمان نےکہاہےکہ حکومت جو حرکتیں کررہی ہے اُس پر ہم اپنا ردعمل دیں گے، اگر متنازع ترمیم کو گردنیں توڑ یا ہاتھ موڑ کر منظور کروایا گیا تو پھر ہم کہیں گے کہ اس نامزد پارلیمنٹ کو اتنی بڑی آئین و قانون سازی کی ضرورت نہیں اور پھر ہم کسی قسم کی پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
تحریک انصاف کی قیادت کےساتھ ملاقات کےبعدرات گئےسربراہ جےیوآئی مولانافضل الرحمان نےچیئرمین پی ٹی آئی کےہمراہ پریس کانفرنس کی جس میں اُن کاکہناتھاکہ ہم نے حکومت کا پہلا ڈرافٹ مسترد کیا اور آج بھی اسے مسترد کرتے ہیں، افہام و تفہیم کیساتھ آگے بڑھنا ہے تو ہم نے خوش آمدید کہا ہے،مجوزہ آئینی ترمیم کے معاملے پر تین ہفتوں سے بحث اور مشاورت کا عمل جاری ہے، اس معاملے پر ہم نےحکومت کے ساتھ مذاکرات کیے اور نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ دو دن قبل بلاول بھٹوکیساتھ بیٹھ کر اس پر طویل بحث کی، پھر گزشتہ روز چار گھنٹوں تک نواز شریف سے بھی اس پر طویل بات ہوئی، جن چیزوں پر اتفاق ہوا اس کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ باقی متنازع چیزوں پر بات چیت جاری ہے۔
مولانافضل الرحمان کامزیدکہناتھاکہ ہمیں کچھ ایسی اطلاعات ملیں کہ حکومت ہمارے مفاہمت کے رویے کو سنجیدہ نہیں لے رہی، ہمارے اراکین کو ہراساں اور اغوا کیا جارہا ہے، جے یو آئی کے ایک رکن کو اغوا کیا گیا جو ابھی میرے گھر میں موجود ہے جبکہ دوسرے کو دھمکی دی گئی اور تیسرے کو بھاری معاوضے کی پیش کش کی گئی۔اختر مینگل کی جماعت کے رکن کے ساتھ بھی واقعہ پیش آیا، اگر حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا سلسلہ ترک نہ کیا تو پھر ہم مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائیں گے، اگر حکومت دلیل سے بات کرے گی تو ہم دلیل سے جواب دیں گے، حکومت کی بدمعاشی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور جو رویہ اختیار کیا جائے گا اُسی طرح جواب دیں گے۔
اُن کاکہناتھاکہ تحریک انصاف اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی کا رویہ مثبت ہے اور وہ ہر مثبت چیز کو خوش آمدید کہہ رہی ہے اور اس معاملے پر مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بار کونسلز اور پاکستان بار کونسل کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔
سربراہ جےیوآئی کامزیدکہناتھاکہ ہم نے آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنے اراکین کو نوٹس جاری کردیے جس میں انہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ پارٹی پالیسی پر عمل کریں۔ حکومت جو حرکتیں کررہی ہے اُس پر ہم اپنا ردعمل دیں گے، اگر متنازع ترمیم کو گردنیں توڑ یا ہاتھ موڑ کر منظور کروایا گیا تو پھر ہم کہیں گے کہ اس نامزد پارلیمنٹ کو اتنی بڑی آئین و قانون سازی کی ضرورت نہیں اور پھر ہم کسی قسم کی پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

Leave a reply