وائٹ ہاؤس کانیارہائشی کون؟کملاہیرس ،ٹرمپ میں کانٹے کا مقابلہ ،سروے

0
7

امریکہ کی صدارت کی جنگ عروج پر،وائٹ ہاؤس کانیارہائشی کون ہوگا،ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار کملاہیرس اورریپبلکن امیدوارڈونلڈٹرمپ کےدرمیان کانٹےکامقابلہ متوقع ہے۔
امریکہ میں 5نومبرکوصدارتی انتخابات ہونےجارہےہیں،جس میں کانٹے دار مقابلےکاامکان ہے،رواں سال نومبرمیں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے دونوں پارٹیاں اپنے امیدوار کو جتوانے کےلئے بھرپور کوششیں کررہی ہیں۔ دونوں امیدوارخودبھی اپنی فتح یقینی بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگارہےہیں۔
کئی سروے میں دونوں کے درمیان سخت لڑائی دیکھی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں دونوں کے درمیان لفظی جنگ میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔
یوایس اےٹوڈےکےمطابق یوماس لوویل اور یوگوو کے ذریعے کرائے گئے تازہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مشی گن، شمالی کیرولینا اور نیو ہیمپشائر جیسی ریاستوں میں کانٹے کی ٹکر ہیں۔
یوایس اےٹوڈےکےمطابق ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کیرولائنا میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس سے تقریباً 2 فیصد پوائنٹس سے آگے چل رہے ہیں جبکہ شمالی کیرولائنا میں 74 فیصد ووٹرز کا خیال ہے کہ ملک غلط راستے پر ہے۔
دوسری جانب مشی گن میں اس کے برعکس حالات دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً 4 فیصد پوائنٹس سے آگے ہیں، جب کہ مشی گن میں 66 فیصد جواب دہندگان نے ملک کی سمت کے حوالے سے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔
یو ایس اے ٹوڈے نے یہ بھی بتایا کہ پنسلوانیا میں کملا ہیرس کو ڈونلڈ ٹرمپ پر صرف ایک پوائنٹ کی برتری حاصل ہے، جب کہ دوسری جانب ریاست نیو ہیمپشائر میں ان کی برتری تقریباً 7 فیصد پوائنٹس کے ساتھ ہے۔
تازہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی ووٹرز ڈونلڈ ٹرمپ کو معاشی مسائل اور غیر قانونی امیگریشن سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر امیدوار مانتے ہیں۔
واضح رہےکہ امریکامیں ہرچارسال بعدصدارتی انتخابات ہوتےہیں،اس سال کولیپ کاسال کہاجاتاہے،امریکا میں 150 سال سے 2 ہی پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا ہے۔ ان میں سے ایک ریپبلکن پارٹی ہے جسے گرینڈ اولڈ پارٹی یا جی او پی بھی کہا جاتا ہے۔ اس پارٹی کا حلقہ اثر زیادہ تر امیر لوگ ہیں۔ جبکہ دوسری بڑی سیاسی جماعت ڈیموکریٹس ہے ۔ اس کے علاوہ بھی چند چھوٹی پارٹیاں ہیں جن میں گرین پارٹی بھی شامل ہے لیکن انہیں کبھی بھی عوامی سطح پر مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔

Leave a reply